کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 28
اس ساری بحث سے مقصود یہ ہے کہ تعلیمی اصلاحات میں اولین چیز مقصد اور پھر دوسرے نمبر پر اصلاح ہے۔ باقی چیزوں کا درجہ اس کے بعد کیونکہ جب تک مقصد درست نہ ہو گا کسی چیز کی اصلاح نہ ہو گی۔ خشت اول چوں نہد معمار کج تاثر یامے رود دیوار کج لہٰذا ہم دینی مدارس میں اس نصب العین کی بقاء کو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت سمجھتے ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی یہ عرض کانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے اکثر دینی مدارس نا دانستہ طور پر اسے چھوڑتے چلے جا رہے ہیں یا دوسری چیزوں کی اس میں ملاوٹ کر رہے ہیں ۔ الا ما شاء اللہ۔ مثلاً آج کل دینی مدارس کے متعلقین میں اس بات کا بڑا احساس اور واویلا ہے کہ دینی علم کو دیا بنانے کا ذریعہ کیسے بنایا جائے؟ حالانکہ جس دن یہ چیز دینی مدارس میں جاگزیں ہو گئی اسی دن ’’صحیح نصب العین کے بقاء‘‘ کی نعمت ان سے چھن جائے گی اور ان مدارس کی رہی سہی اہمیت بھی جاتی رہے گی۔ واضح رہے کہ ہم اس بات کے حق میں نہیں کہ علماء اسلامی معاشرہ کے فقدان اور اسلامی حکومتوں کی سرپرستی سے محرومی کے بعد اپنے رزق کے سلسلہ میں بے فکر ہو جائیں یا دوسروں کے دست نگر بن جائیں کیونکہ ان چیزوں کے مفاسد شدید تر ہیں لیکن یہ بھی انصاف نہیں ہے کہ خود اسلام کے داعی اور انسانیت کے بہی خواہ دوسروں کی اصلاح کرنے کی بجائے اپنی ہی مالی مجبوریوں میں اعلیٰ نصب العین سے ہٹ جائیں ۔ اگر یہ قائم نہ رہیں گے تو پھر کیا عوام اسے قائم رکھیں گے؟ لہٰذا ضروری ہے کہ اس شرف کی حفاظت کرتے ہوئے اس سلسلہ میں ایسے ذرائع سوچے جائیں جس سے دین کے راہنما نصب العین کی بقاء کے ساتھ اپنی مالی احتیاج کا علاج کر سکیں ۔ ہم ان شاء اللہ کسی صحبت میں اس سلسلہ میں بھی چند تجاویز عرض کریں گے۔ دوسری چیز جو دینی مدارس کے لئے قابلِ غور ہے وہ یہ ہے کہ ہمارا نصب العین شریعتِ الٰہیہ کی روشنی میں انسانی زندگی کے پیچیدہ راستوں سے واقفیت اور ان سے خلاصی نیز دوسروں کو ان سے خبردار کرنا اور ان سے چھٹکارا دلانا ہے لیکن آج کل اکثر دینی مدارس اس بنیادی مقصد سے ہٹ کر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں ہیں اور مختلف گروہ بندیوں اور جکڑ بندیوں کی بناء پر جزوی سے جزوی بات کو باعثِ نزاع بنا کر اپنی جملہ مساعی کو اسی پر وقف کیے ہوئے ہیں حالانکہ فکری اختلافات کو حل کرنے کے لئے جزوی مسائل کو مناظرہ و مباحثہ کا رنگ دینے کے بجائے اگر علمی وسعت اور وسعتِ ظرفی سے کام لیا