کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 26
کائنات انسان کے لئے پیدا فرما کر اسے اپنے لئے چن لیا۔ ہم نے تعلیمی اصلاح کے لئے اولین حیثیت دینی مدارس کو اس لئے دی ہے کہ تعلیم میں بنیادی چیز مقصد ہے اور ہمارے دینی مدارس تمام تر زبوں حالی اور زمانہ کے تقاضوں سے تغافل برتنے کے باوجود جس نصبُ العین کو سامنے رکھے ہوئے ہیں وہی انسانیت کی فلاح کا ضامن ہے جبکہ دنیاوی مدارس ترقی کے بلند بانگ دعوؤں اور روشن خیالی کے زعم کے باوجود ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ تعلیم کا اصلی مقصد کیا ہے؟ کیا انسان صرف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ دو وقت روٹی پیٹ بھر کر کھالے یا لباس، سواری اور عمارات میں ایک دوسرے سے سبقت حاصل کر کے اس پر فخر و مباہات کے نعرے لگا سکے۔ لہٰذا دینی مدارس میں صحیح نصب العین کی موجودگی ہمیں اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ اس کے حصول کے لئے پہلے انہیں اپنی کوششوں کا محور بنایا جائے۔ تعلیم کا مقصد: تعلیم کا مقصد وہی ہے جو انسانی زندگی کا مقصد ہے یعنی تعلیم ہی انسان کو اس کے مقصد کی راہ دکھاتی ہے اور تعلیم وہی صحیح ہے جو انسان کو اس کے مقصدِ زندگی سے واقف کر کے اس پر گامزن کر دے۔ انسانی زندگی کا مقصد بلاشبہ حق کی عبودیت ہے جس کا اظہار انسان اللہ اور اللہ کے بندوں کے حقوق (اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے مطابق) پورے کر کے کرتا ہے۔ اور مکمل عبودیت یہ ہے کہ انسان نہ صرف یہ کہ خود اس پر راسخ ہو جائے بلکہ دوسروں کو بھی اس پر گامزن کرنے کی حتی المقدور کوشش کر کیونکہ معاشرہ کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے کوئی شخص خود اس وقت تک صحیح رستے پر مکمل طور پر کار بند نہیں رہ سکتا جب تک کہ سارے معاشرے کا تعاون اور دوڑ اسی نصب العین کی طرف نہ ہو، جس کی طرف وہ خود رواں دواں ہے۔ انہی انفرادی اور اجتماعی طریقوں کی واقفیت صحیح تعلیم ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے دین کو ہمارے لئے ضابطہ بنا دیا ہے۔ لہٰذا ہر قسم کی تعلیم خواہ وہ اللہ کے حقوق بتائے یا بندوں کے، وہ دین ہے اور یہی انسانی زندگی کا مقصد ہے۔ مختصر لفظوں میں یوں کہئے کہ تعلیم انسان کے لئے (اپنے بھائیوں کے تعاون کے ذریعہ) کلمۃ اللہ کی بلندی اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے طریقوں سے واقفیت کا نام ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جہاں اسلامی تعلیم مادی تعلیم سے کٹ کر اپنا ایک ٹھوس مقصد متعین کر لیتی ہے جس کے بغیر دنیا وما فیہا سے واقفیت بھی جہالت ہے۔ رضا الٰہی کے عظیم مقصد کے تعین کے بعد ہماری کامیابی اور ناکامی کے پیمانے بھی بدل