کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 25
دینی مدارس کی اصلاح! قسط نمبر: ۳ بسلسلہ ’’دینی مدارس کے نصاب اور طرزِ تعلیم پر ایک نظر‘‘ حافظ عبد الرشید اظہرؔ (سلفی) قارئین کرام پہلی دو قسطوں میں دینی مدارس میں زیرِ تدریس علوم و فنون کا تاریخی ارتقاء و انحطاط اور ان کی مروجہ نصابی حیثیت پر ہمارا ناقدانہ تبصرہ ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔ اب میں اسلامی تعلیم کے صحیح مقصد کی روشنی میں چند بنیادی اصلاحی تجاویز پیش کرتا ہوں ۔ امید ہے کہ اربابِ فکر اور اصحابِ مدارس ان کا ماہرانہ جائزہ لے کر انہیں عملی جامہ پہنانے کی سعی مشکور کریں گی۔ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو! آمین مرکزی فکر: میرے مضمون کا مرکزی فکر یہ ہے کہ دورِ حاضر میں دین و دنیا کے امتیاز اور تعلیم پر سامراجی اثرات چھا جانے کی وجہ سے جس دوئی نے جڑیں پکڑ لی ہیں ، جس کے نتیجہ میں معاشرہ دو الگ الگ متصادم راہیں اختیار کر چکا ہے۔ اس کو کیسے ختم کیا جائے اور ان و ’’دین پسند‘‘ اور ’’دنیا پرست‘‘ طبقوں میں وحدت پیدا کر کے کس طرح ان کو انسانیت کے صحیح نصب العین پر گامزن کیا جائے۔ تاکہ کتاب و سنت کی تعلیم سے جہاں دنیاوی زندگی کے لئے کامیاب راہنما پیدا ہوں وہاں عصری تعلیم سے آراستہ ایسے ماہرین اور صاحبِ فن تیار ہوں جو مادی ترقی میں برتری حاصل کر کے دنیا میں اللہ کے دین کی سرفرازی کا باعث بنیں ۔ دین و دنیا میں اگر کوئی نظری فرق ہے تو صرف اس قدر کہ دنیا ایک زندگی ہے اور دین اس کا ضابطہ ورنہ عملی اعتبار سے دونوں ایک ہیں ۔ تعلیم میں دنیا اور دین کی ثنویت (دوئی) کی وجہ سے ایک طرف دین پسند طبقہ معاشرتی اور تمدنی مسائل سے آنکھیں بند کر کے اپنی مساعی کو مسجد تک محدود رکھے ہوئے ہے اور روز بروز جزوی اور فروعوی مسائل کے اختلاف کو اُبھارنے سے تعصب اور فرقہ پرستی کا شکار ہو کر تشتت و افتراق میں بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف دنیا پرست طبقہ دین کو قدامت پرستی اور رجعت پسندی قرار دے کر اپنی مادی زندگی میں مگن ہوا جاتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو ایک ناپ سے پیدا کر کے نہ صرف نسلی وحدت دی بلکہ اپنی ذی عقل ناری اور نوری مخلوق جن و ملائکہ سے آدم علیہ السلام کو سجدۂ تعظیمی کرا کے ہمیں اعلیٰ و برتر مقصدِ حیات کا امین بنایا گویا کہ کُل