کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 24
کرتی تھی۔‘‘ (بخاری بمعناہ) دورِ نبوی اور اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے زمانہ میں مسجد کو عدالت کی حیثیت حاصل رہی۔ مقدمات یہیں فیصل ہوتے اور مجرموں کی سزائیں وغیرہ بھی یہیں تجویز ہوتی تھیں ۔ حد البتہ مسجد سے باہر لگائی جاتی تھی۔ سیاسی لحاظ سے مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ امیر المؤمنین کی خلافت کے لئے مسجد کی امامت کو دلیل پکڑا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلے خلیفہ ہیں ، کی خلافت کے لئے مسلمانوں کے نزدیک ایک سند یہ بھی تھی کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی امامت کا شرف حاصل ہو چکا تھا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عدم موجودگی یا بیماری کے ایام میں آپ ہی کو امام مقرر فرمایا تھا۔ غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ اگر کہیں حملے کا ارادہ فرماتے تو رات بھر انتظار کرتے۔ صبح کو جہاں سے اذان کی آواز آتی، وہاں حملہ کرنے سے روک دیتے۔ چنانچہ ایک سفرِ جہاد میں آپ کے کانوں میں ایک طرف سے ’’اللہ اکبر‘‘ کی آواز آئی تو آپ نے فرمایا: ’’فطری شہادت ہے۔‘‘ اس کے بعد آپ نے ’’اشہد ان لا الٰہ الا اللہ‘‘ کی آواز سنی تو فرمایا، ’’آگ سے نجات ہو گی۔‘‘ (صحیح مسلم) تمام مجاہدین کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم تھا: اذا رایتم مسجدا او سمعتم صوتا فلا تقتلوا احدا (ترمذی۔ ابو داؤد) کہ اگر کہیں مسجد دیکھو یا اذان کی آواز سنو تو وہاں کسی شخص کو قتل نہ کرو۔ مندرجہ بالا توضیحات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مسجد کو دینی، تعلیمی، معاشرتی اور سماجی اہمیت کے علاوہ سیاسی لحاظ سے بھی بہت زیادہ اہمیت حاصل تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دینِ اسلام کی بنیاد ہی مسجد پر رکھی گئی ہے۔ مسجد ہمارا دینی شعار ہے۔ اور کسی قوم کی زندگی اس کے شعار ہی سے وابستہ ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر آج ہماری مسجدیں آباد اور پر رونق ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہم غیرتِ اسلامی، اور حمیتِ دینی موجود ہے ورنہ۔ مفقود!