کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 23
جبکہ گندے اور ناپاک رہنے والے لوگ نفرت کا نشانہ بنتے ہیں ۔ [1] مساجد کی وجہ سے ہمیں پاکیزگی اور صفائی کی نعمت بھی میسر ہے۔ مسجد میں نماز کے لئے آنے والے ہر شخص کے لئے یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے وضو کرے (جس کے ساتھ مسواک مسنون ہے) بدبو دار چیز لہسن، پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں نہ آئے۔ بلکہ ہو سکے تو خوشبو یا عطر وغیرہ لگا کر آئے۔ کپڑے خواہ پھٹے پرانے ہی کیوں نہ ہوں ۔ پاک اور صاف ضرور ہوں ۔ بنا بریں نماز کی پابندی کرنے اور مسجد میں پانچ وقت حاضر دینے سے انسان میں طبی طور پر طہارت و نظافت کے احساسات کروٹ لیتے ہیں جو ایک معاشرہ کی عظمت اور سر بلندی کے امین ہیں ۔ الغرض نماز با جماعت ادا کرنے اور مساجد سے اپنا رشتہ جوڑ لینے میں ہمیں بہت سی ایسی نعمتیں اور فوائد میسر ہیں کہ جن کا مخلصانہ صحیح جائزہ لینے سے ہی اسلام کی حقایت ہر ایک پر واضح ہو جاتی ہے۔ اور ہم اپنے تئیں دنیا کی کسی بھی غیر مسلم قوم سے بہتر اور برتر محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ (۴) مساجد کی سیاسی اہمیت سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی مسجد کو ایک نمایاں اور منفرد حیثیت حاصل ہے۔ قرونِ اولیٰ میں مسلمان مساجد میں صرف نماز ہی کے لئے اکٹھے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے تمام اجتماعی، معاشرتی اور سیاسی مسائل کے حل کے لئے صلاح و مشورے اور فیصلے وغیرہ بھی مساجد ہی میں ہتے تھے۔ ہر نماز کے بعد مجلس شوریٰ منعقد ہوتی جس میں مختلف مسائل زیر بحث آتے اور ان کے فوری تدارک کے لئے تجاویز اور پروگرام مرتب کیے جاتے تھے۔ (گویا کہ یہ اس دور کی اسمبلی بھی تھی) اسی طرح باہر سے جو وفود اور سفراء وغیرہ آتے ان سے ملاقات و مذاکرات بھی مسجد ہی میں ہوتے اور اگر کہیں لشکر کشی کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے بھی تجاویز مسجد ہی میں پاس کی جاتی تھیں ۔ یہاں تک کہ مسجد نبوی میں تو لوگ فنونِ حرب کی مشق بھی کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: ’’مسجد نبوی میں حبش کے لوگ گتکا کھیلتے اور میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اوٹ میں بیٹھ کر انہیں دیکھا
[1] موجودہ دور کی مہذب اور ترقی یافتہ اقوام جن کی ہر حرکت کی تقلید کو ہم ایمان کا درجہ دیتے ہیں اس قدر گندی اور ناپاک رہنے کی عادی ہیں کہ کراہت محسوس ہوتی ہے لیکن وائے بد قسمتی کہ ہم انہیں اس معاملے میں بھی اپنا ہیرو خیال کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ’’محدث‘‘ میں ایک مضمون ’’روشن دور کی تاریکیاں‘‘ کے عنوان سے پچھلے ہی ماہ شائع ہوا ہے جسے پڑھ کر آپ محسوس کریں گے کہ غاروں میں برہنہ رہنے والا قدیم زمانے کا انسان بھی ان کی نسبت زیادہ مہذب تھا۔