کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 22
و افتراق کا باعث بن کر بالآخر بتاہی اور ہلاکت پر منتج ہوئے ہیں ۔ اسی لئے اسلام نے اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ قرآن کریم میں ہے: ’’انما المومنون اخوۃ‘‘ (الحجرات: ۱۰) مسلمان آپس میں سگے بھائیوں کی طرح ہیں ۔ اور حدیث میں ہے: لا فضل لعربی علٰی اعجمی ولا لا عجمی علی عربی ولا لابیض علی اسود ولا لابیض علی احمر الا بالتقوٰی او کما قال علیہ الصلٰوۃ والسلام یعنی علاقے، رنگ یا زبان کی وجہ سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں بلکہ تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو۔ بلاشبہ یہ وہ سبق ہے جو اتحاد، مساوات، اخوت، ہمدردی اور تعاون کے جذبات کا مرکزی نقطہ ہے۔ جس کو اپنا کر ہم دنیا میں سر بلند اور باعزت ہوئے اور جس کو خیر باد کہہ کر آج ہم ایک دوسرے کی گردن کاٹنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور نتیجتاً ہمیں اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ اقوامِ غیر ہمیں ترنوالہ سمجھ کر ہڑپ کرنے پر تلی بیٹھی ہیں اور ہمارے مطلعِ حیات پر تباہی و بربادی کے بادل چھا رہے ہیں ۔ اسلام نے مساجد میں نماز باجماعت کے ذریعے اس سبق کو عملی رنگ میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔ ؎ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز! تمام مسلمان امیر ہوں یا غریب، سفید فام ہوں یا سیہ فام، حاکم ہوں یا محکوم، تاجر ہوں یا مزدور، دراز قد صحیح الجسم ہوں یا پستہ قد اپاہج اور معذور، بینا ہوں یا نابینا، کم سن ہوں یا عمر رسیدہ، پنجابی ہوں یا سندھی، بلوچی اور پٹھان، اذان سننے کے بعد سبھی مسجد میں آجاتے ہیں اور وضو کر کے ایک دوسرے کے شانہ سے شانہ ملاتے ہیں ایک ہی امام کی اقتداء میں رب العزت کی بارگاہ میں مؤدب کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ ان سب کا مقصد ایک اور ان کے خیالات میں یک جہتی اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو اخوت کا سنگ بنیاد ہے۔ ہر روز دن میں پانچ مرتبہ انہیں یہی عمل دُہرانا پڑتا ہے اور رشتۂ اخوت و اتحاد مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ نماز با جماعت کے بغیر اس کا تصور بھی ممکن نہیں اور بلاشبہ اس نعمت سے وہی معاشرہ یا قوم سرفراز ہو سکتی ہے جس کا مساجد کے ساتھ نہ ٹوٹنے والا تعلق موجود ہو۔ طہارت و نظافت: طہارت و نظافت بھی کسی قوم یا معاشرہ کے مذہب اور باعزت ہونے کی دلیل ہے