کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 21
متعین نہ ہو، جس کا نہ کوئی ڈرائیور ہو اور نہ ہی کوئی گارڈ یا کنٹرولر، بس اسے سٹارٹ کر کے چھوڑ دیا جائے۔ تو جس طرح اس گاڑی کا حفاظت و خیریت سے کسی جگہ پہنچنا ناممکن ہے بالکل اسی طرح تنظیم اور نظم و ضبط کے بغیر کسی قوم یا معاشرے کی کامیابی کے متعلق سوچا تک نہیں جا سکتا اور اس نظم و ضبط کا رس ہمیں نماز اور مساجد ہی سے ملتا ہے۔ دن میں پانچ بار نمازی مسجد میں حاضر ہو کر ایک امام کی اقتداء میں نماز پڑھتے ہیں اور ہر مقتدی پر یہ لازم ہے کہ امام کے اشاروں پر حرکت کرے۔ اس اقتداء میں نظم و ضبط کا اندازہ ذیل کے فرمانِ نبوی سے لگائیے، فرمایا:
لا تبادروا الامام اذا كبر فكبروا واذا قال ولا الضالين فقولوا اٰمين واذا ركع فاركعوا (مسلم ) [1]
کہ امام سے پہل نہ کرو، جب وہ اللہ اکبر کہے، تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب وہ ’’ولا الضالین‘‘ کہے تو تم آمین کہو اور جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔
بلاشبہ یہ نظم و ضبط کی بہترین ٹریننگ ہے۔ پھر یہی نہیں کہ اس بات کو محض حکماً بیان کر دیا گیا ہو بلکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے متعلق سخت وعید آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَمَا يخشي الذي يرفع راسه قبل الامام ان يحول الله راسه راس حمار
کہ کیا وہ شخص جو امام کے سر اُٹھانے سے پہلے اپنا سر اُٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کوگدھے کے سر جیسا بنا دے؟
اندازہ فرمائیے کہ جس معاشرہ کے افراد ایسے ہی تربیت یافتہ ہوں گے اور وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اسی نظم و ضبط کو اپنا شعار بنائیں گے تو کیا اس کے کامیاب و کامران ہونے میں کسی کو شبہ ہو سکتا ہے؟ اور کیا زندگی کی دوڑ میں ایسی قوم سے کوئی دوسری قوم۔ جو اس سبق سے نا آشنا ہو۔ سبقت لے سکتی ہے؟ ہرگز نہیں !
اتحاد اور مساوات:
طبقاتی کش مکش اور لسانی تعصبات دنیا کی کسی بھی قوم کے لئے مفید ثابت نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ انتشار
[1] بخاری میں بھی یہ حدیث موجود ہے لیکن اس میں ’’ولا الضالین‘‘ کا ذکر نہیں۔