کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 19
ہوتے تھے۔ آج ہم مسلمان مساجد سے دور ہونے کی بنا پر اپنے اہل محلہ، قریبیوں اور ہمسایوں سے بھی کٹ کر رہ گئے ہیں اور ہمدردی وغیرہ کے جذبات سے یکسر عاری ہو چکے ہیں ۔ ہمسایہ کی خیر خیریت پوچھنا، بیماری میں اس کی تیمار داری کرنا۔ اس کے دکھ سکھ میں شریک ہونا اور مصیبت میں اس کے کام آنا تو کجا اکثر لوگوں کو اپنے ہمسایہ کے نام اور کام کے متعلق بھی خبر نہیں ہوتی۔ بلکہ لا تعلقی اور بے حسی تو اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ رات کو پڑوس میں کسی شخص کے ہاں چوری ہو جاتی ہے۔ یا کوئی قتل ہو جاتا ہے اور قریبی مکان والے کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اور اگر وہ حالات سے آگاہ ہو بھی جائے تو بھی اتنی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ ہمدردی و تشفی کے چند بول ہی کہہ دے۔ مساجد میں روزانہ پانچ مرتبہ جمع ہو کر نماز پڑھنے والے افرادِ معاشرہ ان بدترین مثالوں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ چند دیگر فوائد: نا انصافی ہو گی اگر ہم مسجد کی سماجی اہمیت کے ضمن میں ان فوائد کثیرہ کا ذکر نہ کریں جو ایک معاشرے کو مسجد کے قیام سے صرف حاصل ہی نہیں ہوتے بلکہ ان کے بغیر ایک صحیح معاشرہ پروان ہی نہیں چڑھ سکتا اور ترویج و ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے میں ناکام رہ جاتا ہے۔ پابندیٔ وقت: وقت کی پابندی کسی قوم کی بیداری اور معاشرہ کی خوشحالی کی ضامن ہے۔ اس کے برعکس سہل انگار اور اضاعتِ وقت کے مرتکب ہونے والے افراد ایک بہتر معاشرہ کی تعمیر میں ناکام رہتے ہیں جس سے پوری قوم بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ایسی قوم کے افراد عموماً افلاس، بیماری، کمزوری اور فقر و فاقہ کے شکار ہوتے ہیں ۔ بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایسی قومیں آزادی کی حفاظت کرنا تو درکنار زندہ رہنے کا حق بھی کھو بیٹھتی ہیں ۔ اور سر بلندی اور آزادی کی نعمتیں صرف ایسی قوموں کے حصہ میں آتی ہیں جن کے افراد چاق و چوبند، مستعد، وقت کی قدر کرنے والے اور ہر کام میں باقاعدگی کو اپنا شعار بنانے والے ہوتے ہیں ۔ مسجد ہمیں دیگر فوائد سے مستفید کرنے کے علاوہ پابندیٔ وقت کا درس بھی دیتی ہے۔ دن میں پانچ مرتبہ اوقاتِ مقررہ پر اذان دے کر لوگوں کو مسجد میں بلایا جاتا ہے کہ تمام لوگ وقتِ مقررہ پر حاضر ہو کر فریضۂ نماز باجماعت ادا کریں اور اس نمازِ باجماعت کی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت سختی کے ساتھ تاکید فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: