کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 18
رہی اور یہ خانہ خدا ہونے کے علاوہ بہترین درسگاہیں اور یونیورسٹیاں تصور کی جاتی تھیں ۔ موجودہ زمانے میں بھی کچھ عرصہ قبل تک مسجد کو مکتب کی حیثیت حاصل رہی لیکن بالآخر لوگوں نے اس دینی مشغلہ کو کاروبار بنا لیا۔ چند نفس پرستوں اور ہوس کے بندوں نے مخلص لوگوں کو بھی بدنام کر کے رکھ دیا۔ اور نتیجۃً آج لوگ مساجد میں قائم مدارس کے نام سے بھی دور بھاگنے لگے ہیں ۔ لیکن اس میں مسجد کا کوئی تصور نہیں بلکہ یہ ہماری اپنی ذہنیتوں کا قصور ہے اور اس سے مساجد کی علیمی اہمیت و حیثیت پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ خلوص نیتی سے اگر کام کیا جائے تو آج بھی قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ ہو سکتی ہے اور ان علمی سر چشموں سے اپنی پیاس بجھا کر اپنی عظمتِ رفتہ کو بحال کیا جا سکتا ہے۔ (۳) مسجد کی سماجی و اقتصادی اہمیت ایک کامیاب معاشرہ کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کے ہمدرد و غمگسار ہوں ۔ ایک کا دکھ سب کا دکھ اور ایک کی خوشی سب کی خوشی ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: ’’تمام مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں ۔ اگر جسم کے ایک حصہ کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم اس کی وجہ سے بے چین و بے قرار رہتا ہے۔‘‘ علاوہ ازیں قرآن مجید نے بھی قریبیوں ، پڑوسیوں اور اہلِ محلہ وغیرہ سے حسن سلوک کا حکم اکثر مقامات پر دیا ہے۔ لیکن اس حکم پر عمل پیرا ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اہلِ محلہ ایک دوسرے کے حالات سے واقف ہوں ، اور معاشرہ میں یہ کردار بھی جس خوبی اور جس شاندار طریقے سے مسجد ادا کرتی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ایک محلہ یا ایک گاؤں کے مسلمان دن میں پانچ مرتبہ مسجد میں جمع ہوتے ہیں ۔ پھر ہر جمعہ کے روز بڑے پیمانہ پر ایک اجتماع عام ہوتا ہے۔ جس کے باعث لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب ہونے اور ایک دوسرے کے حالات جاننے کا موقع ملتا ہے اور بالآخر یہ چیز ایک دوسرے کی ہمدردی، ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹنے اور باہمی مسائل کے حل کے لئے ممد و معاون ثابت ہوتی ہے اور اس طرح معاشرہ ترویج و ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دورِ نبوی اور اس کے بعد خلافتِ راشدہ کے ادوار میں مسلمان صرف نماز کے لئے ہی مساجد میں اکٹھے نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کے تمام اجتماعی مسائل کے حل کے لئے صلاح و مشورے اور فیصلے وغیرہ بھی مساجد ہی میں