کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 17
’’من اتی المسجد لشیء فھو حظه‘‘ کہ جو شخص مسجد میں جس کام کے لئے آئے گا، وہ اس کا حصہ ہے۔
یعنی اگر ثواب کی نیت سے آئے گا تو ثواب ملے گا اور اگر دنیا کا طمع حاصل کرنے یا شہرت حاصل کرنے اور نمود و نمائش کے حصول کے لئے مسجد میں آئے ا تو اس کی یہ خواہش بھی پوری ہو گی۔ لیکن ظاہر ہے یہ چیز صرف دنیا میں فائدہ دے گی اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہ ہو گا۔ یا اس سے مراد یہ ہے کہ مسجد میں دعا قبول ہو گی۔
مذکورہ بالا احادیث کی روشنی میں کسی ایسے معاشرہ کے اعلیٰ و ارفع اور صالح ہونے میں کیسے شبہ کیا جا سکتا ہے جس کے افراد پانچ وقت مسجد میں جمع ہو کر فریضۂ نماز ادا کرتے ہوں ؟
(۲) مساجد کی تعلیمی اہمیت
اشاعِ علم میں مسجد کا کردار:
مسلم معاشرہ کے قیام کے لئے اشاعتِ علم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور بلاشبہ مسلمانوں کی تاریخ میں یہ کردار مساجد نے نہایت بہتر طریقہ سے ادا کیا۔ دورِ نبوی کی پہلی مسجد، مسجدِ نبوی تھی اور یہی مسجد ملّتِ اسلامیہ کا اوّلین مرکز قرار پائی۔ دیگر گوناگوں خصائص کے علاوہ اس مسجد کو اعلیٰ ترین درس گاہ بلکہ اس دَور کی یونیورسٹی ہونے کا فخر بھی حاصل تھا۔ جہاں شب و روز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معلّمِ انسانیت سے تعلیم و تربیت حاصل کرتے، خصوصاً اصحابِ صفہ تو مسجد نبوی میں رہ کر اسی کام کے لئے کمر بستہ رہتے۔ اسی مسجد میں حلقہ ہائے درس یہاں منعقد ہوتے اور تشنگانِ علم دور دراز سے آکر ان علمی سر چشموں سے اپنی پیاس بجھاتے۔ بنو امیہ اور بنو عباس کے دورِ اقتدار تک مسجد اسی اہمیت کی حامل رہی۔ اس زمانے میں خلفاء کی وابستگی بھی مساجد سے حد درجہ قائم رہی اور وہ ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ مساجد میں امامت کے فرائض انجام دیتے، جمعہ کے روز منبر کی زینت بنتے اور علمی مسائل حل کر کے لوگوں کو مستفید فرماتے۔ عباسی دَور میں مامون و ہارون اس رعب و داب کے خلفاء تھے کہ قیصرِ روم ان کا نام سن کر لرزہ براندام ہو جاتا تھا، جب نماز کا وقت آتا تو تاج و تخت سے الگ ہو کر مسجد میں آتے اور فرائضِ امامت ادا کرتے۔ الغرض تاریخِ اسلام کے مختلف ادوار میں مساجد کو امتیازی حیثیت حاصل