کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 15
تک مساجد پُر رونق رہیں اور مسلم معاشرہ میں ان کی ضرورت و افادیت کو محسوس کیا جاتا رہا۔ اسلام بھی سر بلند رہا۔ لیکن جونہی مساجد کی مرکزی حیثیت متزلزل ہوئی اور قرآن و حدیث کو چھوڑ کر دوسری تعلیمات کا دور دورہ ہوا۔ لوگ مساجد سے دور ہونے لگے اور معاشرہ میں مساجد کو وہ مقام حاصل نہ رہا جو قرونِ اولیٰ میں تھا تو مسلمان بھی اپنی شان و شوکت کھو کر تنزل و تسفل کا شکار ہوتے چلے گئے اور بالآخر اسلام کو غربت سے ہمکنار ہونا پڑا۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسلامی معاشرہ کی تشکیل و تعمیر کا تمام تر دارو مدار ہی مساجد پر ہے۔ تاہم اپنے اس دعویٰ کی صداقت کے لئے ہمارے لیے اس امر پر روشنی ڈالنا از بس ضروری ہے کہ مسلم معاشرہ کے قیام میں مساجد کیا کردار ادا کرتی ہیں اور معاشرہ میں ان کی دینی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی اہمیت کیا ہے؟ (۱) مساجد کی دینی اہمیت قرآن مجید میں ارشادِ ربانی ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ (الذٰریٰت: ۵۶) کہ انسان کا مقصدِ تخلیق ہی عبادت ہے اور اسی چیز پر آخرت میں انسان کی کامیابی کا انحصار ہے۔ عبادات کہ انسان کا مقصدِ تخلیق ہی عبادت ہے اور اسی چیز پر آخرت میں انسان کی کامیابی کا انحصار ہے۔ عبادات کا مظہرِ اوّل نماز ہے اور چونکہ مسجد اصطلاح میں اس جگہ کو کہتے ہیں جو نماز کے لئے وقف کر دی گئی ہو۔ لہٰذا دینی اعتبار سے مسجد کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس ضمن میں قرآن و حدیث میں کافی آیات و احادیث مذکور ہیں جن میں یا تو مسجد کی دینی اہمیت بیان کی گئی ہے اور یا نماز باجماعت کے فوائد و ثواب پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ذیل میں چند ایک نصوص ملاحظہ فرمائیں ۔ مسجدوں کی آبادی ایمان کی دلیل ہے: قرآن مجید میں ہے: اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ (التوبہ: ۱۸) کہ بیشک اللہ کی مسجدوں کو وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ اس آیت میں جہاں یہ بتلایا گیا ہے کہ مساجد کے آباد کار مومن ہی ہو سکتے ہیں ۔ وہاں ان کو یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ یہ ان کے ایمان ی دلیل بھی ہے جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث سے ظاہر ہے جو اسی آیت کی تفسیر میں وارد ہے: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا رایتم الرجل یتعاھد المسجد فاشھدوا له بالایمان فان اللہ یقول انما یعمر مساجد اللہ من امن بالله واليوم الاخر (ترمذي، ابن ماجه، دارمي)