کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 14
بیت اللہ کی تعمیر تھا۔ پھر جب آپ کی اولاد اقطارِ دنیا میں پھیلی تو آپ ہی کے ایک صاحبزادے نے (بیت اللہ کی تعمیر کے چالیس برس بعد [1]) بیت المقدس کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد ملّتِ اسلامیہ کے بانی حضرت ابراہیم اور ان کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ہاتھوں بیت اللہ کی از سرِ نو تعمیر تو قرآن مجید سے بھی ثابت ہے۔ اسی طرح حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دعوت الی الحق کا بیڑا اُٹھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مرکز خانہ کعبہ یا مسجد الحرام کو بنایا اور جب کفار کی طرف سے اعلانیہ مخالفت ہوی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بامرِ مجبوری دارِ ارقم کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لاتے ہین پھر سے خانہ کعبہ اور مسجد الحرام کی دیواریں تکبیر کے نعروں اور توحید کے کلمات سے گونجنے لگیں ۔ اور پھر جب کفار کی مخالفت انتہا کو پہنچ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ شریف تشریف لے گئے تو یہاں کی فضا کو مسلم معاشرہ کے لئے سازگار سمجھتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلا کام جو کیا وہ مسجدِ نبوی کی تعمیر تھی۔ اس کے بعد جوں جوں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ ہر قبیلہ اور ہر محلہ میں الگ الگ مسجدیں تعمیر ہوتی چلی گئیں ۔ اگرچہ عام غربت اور سادگی کی وجہ سے اس دور میں جو عام مساجد تعمیر ہوئیں وہ زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکیں اور مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بہت سوں کا نام و نشان بھی مٹ گیا تاہم تاریخ ہمیں بتلاتی ہے کہ اسلام کی روشنی نے جب عرب کے گوشے گوشے کو منور کر دیا تو عرب کا کوئی گاؤں ، شہر اور محلہ مساجد سے خالی نہ تھا۔ [2]
پھر اسلام نے سر زمینِ عرب سے قدم باہر نکال کر جب اپنے قومِ میمنت لزوم سے بیرونِ دنیا کو نوازنا شروع کیا تو جہاں جہاں اسلام کی روشنی پہنچی اور مسلم معاشرہ کا قیام عمل میں آیا، مساجد تعمیر ہوتی چلی گئیں ۔ جن میں سے بعض آج بھی اپنی روایتی شان و شوکت کے ساتھ موجود ہیں ۔ موجودہ دور کے غیر مسلم ممالک بھی جہاں کچھ بھی مسلمان موجود ہیں ۔ مساجد سے خالی نہیں اور مسلمان ممالک کا تو ذکر ہی کیا، ہر گاؤں ، ہر محلہ اور ہر شہر میں مساجد کے شاندار مینار اپنی عظمت و رفعت کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں ۔
مندرجہ بالا تاریخی حقائق مسلم معاشرہ کے قیام میں مسجد کی اہمیت و ضرورت کی واضح ترجمانی کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کا وہ معاشرہ جو استحکام، پائیداری اور عظمت و رفعت کی بہترین مثال تھا، مساجد ہی کا مرہونِ منت تھا اور ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ جب
[1] مسجد اقصیٰ کی تعمیر خانہ کعبہ کے چالیس سال بعد ہوئی۔ (ابن جریر،۔ جلد ۴، ص ۷)
[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، ہر محلہ میں مسجد بناؤ اور انہیں صاف اور خوشبو دار رکھو۔ (ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)