کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 12
مصر اور لیبیا کو آپس میں مدغم کر کے ایک مملکت بنا دیا جائے۔ ریڈیو طرابلس نے روزنامہ ’’البلاغ‘‘ کے اداریہ کا حوالہ دیتے ہوئے صدر انور السادات سے صدر قذافی کی پیش کش کو بلا تاخیر قبول کر لینے کی اپیل کی۔ اداریہ میں کہا گیا تھا کہ لیبیا اسرائیل کے خلاف جنگ میں مصر کا نہایت طاقتور اور با اعتماد حلیف ثابت ہو گا۔ (نوائے وقت ۲۷/ جولائی) صدر قذافی کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے انہوں نے نہایت ہی مبارک اور مطلوب امر کے لئے تحریک ڈال دی ہے۔ ہمارا شروع سے ہی یہ نظریہ رہا ہے کہ مسلم کی جغرافیائی، نسلی اور لسانی اکائیاں کم سے کم تر کرنے کی کوشش کی جائے۔ کیونکہ وحدتِ ملّت، ہماری سیاست کا بنیادی محور ہے۔ تقسیم کار کی حیثیت سے مختلف وحدتوں میں تقسیم ہونا بُرا نہیں لیکن جداگانہ مملکتوں کا تصور اسلامی نہیں ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ پورے عالمِ اسلام کو صدر قذافی کی پیشکش کا نہایت سنجیدگی سے مطالعہ کرنا چاہئے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل صاف نظر آتی ہے کہ کرسی اور جاہ و حشمت کے ان بھوکوں کے لئے جنہوں نے اپنی ہوسِ اقتدار کے لئے امّتِ مسلمہ کے حصے بخرے کیے ہیں ان کو اپنی ان بے آبرو اور مختصر اکائیوں اور یونٹوں میں کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ روز بہ روز ان کی بے عزتی کی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں ۔ ان میں اگر ذرہ بھر بھی حمیت اور غیرت ہو تو ان کو اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ بالشت کی جداگانہ ریاستوں کو ختم کر کے ’’وحدتِ ملّی‘‘ کا مظاہرہ کرنا چاہئے اس سے ان سب کی بگڑی بن جائے گی (ان شاء اللہ) دنیا بھی سدھر جائے گی اور آخرت بھی۔ ذرا اس نسخۂ کیمیا کو بھی آزما کر دیکھ لیجئے۔ اللہ آپ کے ساتھ ہے۔ (7) پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے صدر مسٹر جاوید ہاشمی نے ایک عظیم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے: ’’مسٹر بھٹو نے مغربی پاکستان میں چالیس فیصد سے بھی کم ووٹ حاصل کیے تھے۔۔۔۔ مگر آپ لوگ شکست خوردگی کا شکار ہو گئے اور ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر عوام کی آواز کو مؤثر طور پر آگے بڑھانے میں ناکام رہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ۔۔۔۔ ’’آپ باقی ماندہ پاکستان کو بچانے کی تگ و دو کر رہے ہیں ۔ لیکن خود آپ کی صفوں میں اتحاد نہیں ۔ اگر ملک کو بچانا ہے تو قومی رہنماؤں کو چاہیے کہ وہ سب سے پہلے متحد ہوں ۔‘‘ (وفاق ۲/ جولائی)