کتاب: محدث شمارہ 19 - صفحہ 11
وعدوں کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ ان کے اقتدار کے لئے فالِ بد بھی ہے۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ چڑنے کے بجائے ان سے سبق لینے کی کوشش کریں اور جمہوری ملکوں کی طرح اخبارات اور ان کی آزادی کا احترام کریں ۔ ملکی اخبارات کی بے چینی پورے ملک کو بد نام کر سکتی ہے۔ خاص کر اخبارات کو ممنون کرنے یا دھونس کے ذیعے ان کو دبانے کی کوششیں ملکی اخبارات کو ’’بے ضمیر‘‘ بنانے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ اب حکومتِ پاکستان کا یہ اعلان کہ ’’یکم اگست کو پورے ملک میں یومِ آزادیٔ صحافت سرکاری طور پر منایا جائے گا۔‘‘ بڑا دلچسپ ہے۔یہ ملحوظ رہے کہ اس سے پہلے خان ولی خان اور میاں طفیل اس کا اعلان کر چکے ہیں لیکن یہ خیال رہے کہ ؎ نقل را عقل باید (5) صدر سمیت اربابِ اقتدار کا اندازِ گفتگو قائدانہ سے زیادہ مخاصمانہ ہوتا ہے۔ خاص کر جب اپنی کسی حماقت کو چھپانے کی ضرورت انہیں محسوس ہوتی ہے تو اس پر پردہ ڈالنے کے لئے اپوزیشن پارٹیوں کا نام لے لے کر ان کو کوستے اور موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔ سیاسی جماعتوں کے سلسلہ میں انکا یہ کہنا کہ: ’’وہ سماج دشمن ہیں ، غدار ہیں ، سرمایہ داروں کے ایجنٹ ہیں ، ملک کو تہس نہس کرنے کے در پے ہیں وغیرہ وغیرہ، حد درجہ غیر محتاط طرزِ گفتگو ہے۔ اگر وہ ایسی ہی ہیں تو ان کے خلاف عدالت میں کیس کرنا چاہئے۔ ورہ عوام سے یہ بھی غداری ہو گی۔ متمدن ممالک اور زندہ قوموں میں ہی اختلافات پائے جاتے ہیں مگر وہ دوسروں کو جلی کٹی سنانے کے بجائے قوم کے سامنے اپنے اپنے پروگرام پیش کرتے ہیں ، عوام کو سوچنے سمجھنے کا موقع دیتے ہیں ، اور آزادانہ غور و فکر سے وہ ایک نتیجہ پر پہنچ کر اپنی مرضی کے رہنما کا انتخاب کر لیتے ہیں ۔ پھر انتخاب جیت کر مخالف جماعتوں پر لے دے کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ بلکہ اپنے پیش کردہ پروگرام کے مطابق پروگرام بنا کر چل پڑتے ہیں ۔ ان کو کسی کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرنا پڑتی، نہ موافق نہ مخالف۔ اس لئے ہم چاہتے ہیں کہ صدرِ مملکت اپنا رویہ اور زبان بدلیں ۔ (6) تریپولی ریڈیو کے ایک نشریہ میں مصر کے صدر انور السادات سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ لیبیا کے صدر کرنل معمر قذافی کا یہ مطالبہ فوراً مان لیں کہ: