کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 9
اس روایت کے آخر میں ان کے روح فرسا اور حوصلہ شکن نتائجِ بد کا ذِکر آیا ہے جو اب ہم شب و روز مشاہدہ کر رہے ہیں ۔
بعض بزرگوں نے اس حدیث کی روایتی حیثیت سے بحث کی ہے، مگر محدثانہ نقد و نظر کے مطابق بالآخر یہ طے پایا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے، خود صحیح بخاری کا نام اس کی صحت کی ضمانت کے لئے کافی ہے۔
اس حدیث میں جن چار امور کا ذِکر کیا گیا ہے۔ محل و موقعہ کے لحاظ سے ان کا علی الانفراد جائزہ حدیث کے خطاب اور اس کی روح کے سمجھنے میں کچھ زیادہ مفید نہیں ہے۔ اصل بات یہ بتائی جا رہی ہے کہ ان چاروں میں قدرتی تلازم پایا جاتا ہے۔ ایک کا رسیا دوسری تینوں سے بالکلیہ بے تعلق نہیں رہ سکتا۔ اگر بعض عوارض اور مواقع کی وجہ سے ایک آدھ کا تخلف ہو جائے تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کے قلب و نگاہ میں بھی اس کی کسک باقی نہیں رہی۔ ایک بدکار جس طرح لطیف بھڑکیلے لباس، شراب اور رقص و سرور کے لئے اپنے اندر قدرتی تحریک محسوس کرتا ہے وہ بالکل ظاہر ہے۔ یہی حال موسیقی کے رسیا اور پُرکشش آتشیں کپڑوں اور شرابِ ناب کے متوالوں کا ہے۔ گو بات کڑوی ہے تاہم اگر ایسے لوگ گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو انہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ بات پتے کی ہے۔ ہمارے اس نظریہ کی تائید ابن ابی الدنیا کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں ان آفات و بلیات کا محرک بیان کرتے ہوئے فرمایا:
قالت عائشۃ یا رسول اللہ وھم یقولون لا الٰه الا الله؟ فقال اذا ظھرت القيان وظھرت الربا وشربت الخمر ولبس الحرير كان ذا عند ذا۔
ان کلمہ گوؤں میں یہ فتنے اس وقت اُبھریں گے جب پیشہ وارانہ غنیٰ، ربا، شراب اور ریشمی کپڑوں کا دور چلے گا۔
اسی مضمون کی ایک اور روایت عن ابن عباس امام احمد و ابو داؤد میں اور ابو امامہ سے مسند احمد میں مروی ہے۔
ریشم کا استعمال عورتوں کے لئے جائز ہے، جب محض لطافت پسندی اور ذوقِ نفاست اس کا محرک ہو لیکن یہ عورتوں کو نمود و نمائش کے لئے جلوہ نمائی پر بھی مائل کر دے تو ان کے لئے بھی حرام ہے۔ اسی لئے دَور میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں کے لئے لباسِ فاخرہ کی حوصلہ شکنی کی ترغیب بایں الفاظ دی تھی۔
(قال عمر) استعینوا علی النساء بالعری ان احدھن اذا کثرت ثیابھا