کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 6
اکابر کے سلسلہ میں معاندانہ تنگ ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ موصوف دانستہ یا نا دانستہ قرآن کے نام پر بالکل اسی طرح ’’قرآنیات‘‘ کے خلاف کام کر رہے ہیں جس طرح ان کے ہم نام اور ہم وطن جناب غلام احمد آنجہانی نے ’’نبی‘‘ کے نام پر نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خدمات انجام دی تھیں ۔
(۲)
۵/ جون موچی دروازہ لاہور میں ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ میں تقریر کرتے ہوئے سرحد کے وزیرِ اعلیٰ اور جمعیۃ علمائے اسلام کے رہنما مولانا مفتی محمود نے فرمایا:
’’پاکستان کا مستقل آئین قرآن و سنت کی اساس پر ہونا چاہئے اور یہ کہ پاکستان کا سربراہ مسلمان ہو اور تمام کلیدی عہدے جن میں افواجِ پاکستان کے سربراہوں کے عہدے بھی شامل ہیں ، مسلمانوں کے لئے مخصوص رکھے جائیں ۔‘‘ نیز فرمایا کہ:
’’آئین میں مسلم اور غیر مسلم کی واضح تعریف موجود ہونا ضروری ہے اور ختم نبوت کے مسئلہ کو دستور میں حتمی طور پر طے کر دینا ہو گا۔‘‘ انہوں نے اس امر پر خاص طور پر زور دیا کہ ’’مستقل دستور میں اس امر کی واضح شِقّ موجود ہونی چاہئے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہو گا۔‘‘ نیز انہوں ے مطالبہ کیا کہ ’’دستور ساز اسمبلی کے اختیارات محدود ہونے چاہئیں اور اسے اسلامی دستور کے علاوہ دوسرا دستور بنانے کا اختیار نہیں ہونا چاہئے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ اعلان بھی کیا کہ ’’ان کی جماعت تینوں مسلم لیگوں ، جمہوری پارٹی اور جماعتِ اسلام کے ساتھ پاکستان کے اسلامی دستور کی تسوید میں پورا پورا تعاون کرے گی۔‘‘ آپ نے کہا کہ ’’ہم یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ پاکستان میں غیر اسلامی آئین نافذ کیا جائے گا۔‘‘ (نوائے وقت ۶/ جون)
مفتی موصوف نے جو باتیں کہی ہیں وہ ہم سب کے دل کی آواز ہے لیکن یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ یہ عظیم مقاصد صرف تقریروں یا بیانات سے پور نہ ہوں گے بلکہ اس سلسلہ میں مخلصانہ اور متحدانہ کوششیں ہی کامیابی سے ہمکنار کریں گی۔ بالخصوص انہوں نے مرزائیت کے بارے میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ بہت ہی اہم ہے۔ کیونکہ ہمارے نزدیک اشتراکیت کی طرح مرزائیت بھی عہدِ حاضر کا بہت بڑا فتنہ ہے۔ لیکن لوگ کہتے ہیں ’’پیسہ شیر کے کان میں ہے۔‘‘ یعنی مرزائیت کے مستقبل کا فیصلہ کرنا، پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے اور وہ نہ صرف مرزائیوں کی ممنون ہے بلکہ بقولِ بعض ان کی جیب میں بھی ہے۔ بہرحال