کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 5
اب انہی کرم فرماؤں کو یہ تازہ غم لاحق ہو گیا ہے کہ پاکستان کے کسی گوشہ میں کوئی ’’مولوی‘‘ کیوں بر سر اقتدار آگیا ہے۔ چنانچہ ’’طلوعِ اسلام‘‘ جو پرویزیت کا ترجمان ہے۔ ’’حقائق و عبر‘‘ کے تحت ’’مفتی محمود‘‘ صاحب پر ایک نوٹ تحریر فرماتے ہوئے لکھتا ہے:
’’علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ؎
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے اس کو کیا جانیں یہ بے چارے دو رکعت کے امام
اگر آج وہ زندہ ہوتے تو اپنا سر پکڑ کر بیٹھ جاتے کہ انہی ’’دو رکعت‘‘ میں سے ایک صاحب مغربی پاکستان کے ایک صوبہ (سرحد) کی وذارتِ عالیہ کی مسند پر متمکن ہو گئے ہیں ۔ ہم اس حادثۂ عظمیٰ پر سوائے اس کے کہ اہل سرحد کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں اور کیا کر سکتے ہیں ؟ اور یہ حقیقت نتیجہ ہے اس مغربی جمہوریت کی لغت کا جس میں ؎
’’بندوں کو گنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے۔‘‘ (طلوع اسلام جون ۱۹۷۲ء ص ۱۹)
یہ ہیں وہ مسٹر جو وسیع الظرف مشہور ہیں اور ’’تنگ نظر مُلّا‘‘ کی پھبتی سے ’’عصائے پیری‘‘ کا کام لے رہے ہیں ۔ رات دن طبقاتی ذہنیت کا نوحہ کرتے رہتے ہیں لیکن ان کا اپنا یہ حال ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
دنیا کے ہر گوشے میں بد سے بد تر اربابِ اقتدار پڑے ہیں ، جن کی زندگیاں ننگِ قرآن اور ننگِ نبی علیہ السلام ہیں ۔ شراب و کباب کے رسیا، سیاسی شعبدہ باز، قوم فروش، کند ذہن، سیاسی تلاش، رسہ گیر، عوام دشمن الغرض ہر لحاظ سے ننگِ دین اور ننگِ وطن بر سر اقتدار آئے اور ہیں لیکن جناب مسٹر پرویز اور آپ کے ترجمان ماہنامہ طلوع اسلام کی کبھی چیخ نہیں نکلی۔ صدیوں بعد ملک کے کسی ایک صوبہ میں اگر عالمِ دین کو محدود اقتدار اور غالباً بے وفا سا مل گیا ہے تو ’’مسٹروں ‘‘ کی جان پر بن گئی ہے آخر راز کیا ہے؟
جمعیۃ علمائے اسلام اور اس کے رہنماؤں سے ہمیں جو اختلاف ہے وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم پورے وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’مسٹروں ‘‘ کے اقتدار کی بہ نسبت ایک ’’عالمِ دین‘‘ کا اقتدار ان شاء اللہ بہت زیادہ با برکعت ثابت ہوگا۔
بہر حال ’’مسٹر پرویز‘‘ اور آنجناب کے ترجمان ’’طلوع اسلام‘‘ نے علماء کے خلاف جو توہین آمیز روش اختیار کی ہے اور کمیونسٹوں کی خصوصی ٹیکنیک کے مطابق جس طرح انہوں نے طبقاتی کم ظرفی اور اسلام پسند