کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 48
خاتمہ کلام: اسلامی تاریخ نادر روزگار اور عظیم شخصیات کی سرگزشتوں سے مخمور و معمور ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ان اسفار، رحلات اور سیاحت میں کیسی کیسی ناقابلِ برداشت مشقتیں ان لوگوں کو اُٹھانا پڑیں کہ ایک طرف تو ریگستانوں ، کوہستانوں اور سنگریز علاقوں کا پیادہ پا سفر طے کرنا اور پھر افلاس و قلاشی اس پر مستزاد ایک ایک گھونٹ پانی کے لئے سفر میں تڑپنا، بھوک کی وجہ سے ہوش و حواس تک کھو بیٹھنا۔ ہر طرف افلاس کے آدم خور دیو کی منحوس صورت کا سامنے ہونا اور قوتِ لا یموت کے حصول کی ادنیٰ سے ادنیٰ صورت کا بھی معدوم ہونا، کبھی جڑی بوٹیوں کے پتوں پر زر اوقات کرنا اور کبھی کسی نانبائی کی دوکان پر صرف بوئے طعام پر قانع ہونا اور اس پر طرہ یہ کہ حوصلوں کو پست کر دینے والی محنت اور مشقت کے مقابلے میں انواع و اقسام کے ناز و نعم اور نفسانی خواہشات کا اپنی طرف کھینچنا اور ان سے مقابلہ کر کے ان کو تج کر صرف مقصدِ حصولِ علم کے لئے وقف ہو جانا بلاشبہ ایسے صبر آزما مراحل ہیں کہ ہمارے لئے تو ان کا تصور بھی محال ہے۔ لیکن ان لوگوں نے محض سچی طلب کی خاطر ان صعوبات پر قابو پایا اور بالآخر منزلِ مراد کو پہنچے ان کے قدم کہیں نہیں ڈگمگائے بلکہ ہر مشکل اور ہر مصیبت نے ان کے سمیندِ عزم پر تازیانہ کا کام کیا اور ہمت ہارنے کے بجائے ان کے عزائم اور زیادہ مستحکم اور حوصلے اور زیادہ بلند ہوتے چلے گئے۔ مرحباً صد ہا مبارکبادی کے مستحق ہیں یہ بزرگانِ دینِ متین، اسلافِ صالحین اور نفوس قدسی جن کی مشقتوں اور محنتوں کے ثمرہ میں ہم جیسے احسان فراموش، ناعاقبت اندیش اور غافل کیش لوگ متمتع ہو رہے ہیں ۔ لیکن ہم نے بھول کر بھی ان کی قدر نہ کی، بیگانے تو خارج از بحث ہیں ، ہم نے اپنوں تک کو معاف نہیں کیا، بجائے ان کے ممنونِ احسان ہونے کے ہم نے ان کی ذاتوں کو ہدفِ تنقید بنایا اور ان پر اس حد تک لعن طن کیے کہ جو منہ میں آیا خرافات بکتے چلے گئے۔ ان کی تابناک زندگی کو داغدار بنانے کی ناپاک جسارت کی اور ان کے کارناموں پر پانی پھیر دینے کی شرمناک حرکت کے مرتکب ہوئے لیکن یہ ہماری اپنی ہی بد بختی ہے۔ چمگادڑ کو اگر سورج نظر نہ آئے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے نہ کہ سورج کا۔ بلاشبہ محدّثین کی خدمات اظہر من الشمس اور احاطۂ تحریر سے باہر ہیں ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قبروں کو نورِ حمت سے روشن فرمائے۔ ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد۔