کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 47
پانی لے کر اس کے پاس آئے اور اس کو پانی پلایا۔ پانی پی کر اس کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے انہیں ہمارے بارے میں بتایا کہ میرے دو ساتھی بے ہوش پڑے ہیں ۔ یہ سن کر ان کے چند آدمی ہماری طرف بھاگے۔ مجھے اس وقت ہوش آیا جبکہ ایک آدمی میرے منہ پر پانی کے چھینٹے مار رہا تھا۔ ہوش میں آنے پر میں نے ان سے بوڑھے کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ چند آدمی اسے بھی لینے گئے ہوئے ہیں ۔ تھوڑی دیر بعد ان کی مدد سے بوڑھا بھی ہم سے آملا۔ اور پھر انہوں نے چند روز تک ہماری خوب خاطر تواضع کی حتیٰ کہ ہماری طاقت بحال ہو گئی۔ پھر انہوں نے ہمیں کچھ کیک اور ستو دے کر رخصت کر دیا اور ساتھ ہی ایک رقعہ رایہ نامی شہر کے حاکم کے نام دے دیا۔ ہم دوبارہ منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن زادِ راہ جلد ہی ختم ہو گیا۔ کھانے پینے کو اور تو کچھ نہ ملا، راستے میں ہم نے ایک کچھوا دیکھا جس کی پیٹھ ہم نے پتھر مار مار کر پھوڑ دی۔ اس میں سے ایک زردی مائل سفیدی دکھائی دی اور اس کو ہم نے سمندر کے کنارے پڑی ہوئی سیپیوں سے بطور چمچ استعمال کرتے ہوئے کھالیا۔ کچھ جان میں جان آئی تو دوبارہ چل نکلے یہاں تک کہ رایہ نامی شہر میں پہنچ گئے۔ ہم نے وہ رقعہ حاکم شہر کو دیا۔ اس نے ہماری خوب آؤ بھگت کی۔ وہ ہمیں روزانہ کدُّو کھلاتا رہا۔ ایک روز ہمارے ایک ساتھی نے اپنی زبان فارسی میں دوسرے سے کہا کہ ’’تم اپنے لئے بھنا گوشت کیوں نہیں منگواتے۔‘‘ حاکم شہر اسے سمجھ گیا اور کہنے لگا کہ میں فارسی جانتا ہوں کیونکہ میری دادی ہرات کی رہنے والی تھی۔ پھر اس نے ہمارے لئے گوشت منگوایا۔ ہم چند دن وہیں ٹھہرے۔ پھر اس نے ہمیں زادِ راہ دے کر رخصت کر دیا اور ہم بخیریت مصر پہنچ گئے۔ تو یہ ہیں وہ واقعات جو ابو حاتم کی زبان سے کھل گئے ہیں ورہ اکثر یہ لوگ اپنے اسفارِ علمی کی مشکلات وغیرہ بیان کرنے سے گریز ہی کرتے۔ ائمہ محدثین میں سب سے زیادہ شہرت صحاح ستہ کے مصنفین کو ہے اور ان کے علاوہ اور دوسرے محدثین بھی کئی بار ایسے دشوار گزار راستوں سے گزرے۔ تاہم انہوں نے زیادہ اہمیت اسی مقصد کو دی جس کی خاطر وہ گھر سے نکلے تھے یعنی علم کی خاطر عموماً اور احادیثِ نبویہ کی خصوصاً تلاش ان کی تدوین، راویوں کے حالات اور ان کی چھان بین وغیرہ۔ ڈائریاں وغیرہ لکھنے پر کسی نے کوئی توجہ نہیں دی کیونکہ اگر کہیں یہ لوگ ڈائریاں اور اپنی سوانح عمریاں لکھنے بیٹھ جاتے تو ان کا مقصد فوت ہو جاتا اور ہمیں دین کی یہ محفوظ اور مامون شکل شاید ہی دیکھنی نصیب ہوتی۔ شائقین علم، علم کی پیاس بجھانے کے لئے ہزار ہا صعوبتیں اُٹھا کر نظر انداز کر دیتے اور صرف علمی معلومات کا اظہار کرتے تھے اور ان مشکلات کو برداشت کرنے والے افراد چند ایک نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں موجود تھے جو قرون اولیٰ میں علم کی صحبت کی خاطر مارے مارے پھر رہے تھے۔