کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 46
آگئے۔ جب تیسرا روز ہوا تو میرا دوست پھر مجھے بلانے آیا تو میں نے معذوری ظاہر کی کہ مجھ میں کمزوری کے باعث ہلنے کی طاقت نہیں ، اس نے وجہ پوچھی تو میں نے اسے صاف صاف بتا دیا کہ میں نے دو دن سے کچھ نہیں کھایا۔ اس کے پاس ایک اشرفی تھی۔ آدھی اس نے مجھے دے دی اور آدھی کرایہ کے لئے بچا لی اور ہم بصرہ سے واپس آگئے۔‘‘ اس واقعہ سے جہاں طالب علم میں مصائب کا اندازہ ہوتا ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ طلبِ علم کے لئے اپنا ذاتی خرچہ کرتے تھے۔ حکومت کی طرف سے وظائف یا عوام کی طرف سے کوئی خاص معاونت انہیں حاصل نہ تھی۔ آج طلباء کو سفری سہولتیں حاصل ہیں ۔ مدارس میں کھانے پینے اور رہائش کا مفت بندوبست ہے۔ کوئی فیس بھی نہیں ، بلکہ کتابیں تک مفت مہیا کی جاتی ہیں ۔ اس کے باوجود لوگ علم حاصل کرنے کو عار اور دنیا سے فرار سمجھتے ہیں ۔ ابو حاتم کا دوسرا واقعہ یوں منقول ہے کہ: ’’ایک دفعہ ہم سمندر میں سفر کر رہے تھے کہ رات کو مجھے احتلام ہو گیا، نہانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ تیرنا آتا نہیں تھا کہ سمندر میں غسل کر لیتا۔ بہ حالتِ مجبوری اپنے ساتھیوں سے ذکر کیا تو انہوں نے تجویز پیش کی کہ ہم تمہیں رسہ سے باندھ کر سمندر میں لٹکا دیتے ہیں ، تم غسل کر لینا۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔‘‘ وہ کہتے ہیں : ’’میں نے پہلے اچھی طرح وضو کیا اور پھر غسل کرنے کے بعد انہیں باہر نکالنے کو کہا اور انہوں نے مجھے اوپر کھینچ لیا۔‘‘ اندازہ کیجئے کہ لمبے سفروں خصوصاً بحری راستوں میں اس قسم کی معمولی چیزیں بھی کس قدر پریشانی کا باعث ہو جاتی ہیں ۔ اس کتاب سے حاتم رازی رحمہ اللہ کا ایک اور واقعہ ملاحظہ فرمائیں : ’’ہم مدینہ منورہ سے جب داؤد جعفری رحمہ اللہ سے پڑھ کر نکلے تو جار کی طرف روانہ ہوئے۔ ہم تین آدمی تھے۔ مَینِ ابو زہیر مروزی بوڑھا اور ایک نیشا پوری۔ ہم تینوں کشتی میں سوار ہوئے۔ لیکن تین ماہ تک بادِ مخالف چلتی رہی۔ زادِ راہ تقریباً ختم ہو چلا تھا۔ ہم خشکی پر اترے تو بچا کھچا راشن بھی ختم ہو گیا۔ ہم بغیر کچھ کھائے پئے چلتے رہے۔ دو دن اسی طرح گزر گئے۔ ہم شام تک اپنا سفر جاری رکھتے اور پھر نمازیں پڑھ کر رات کو سو جاتے۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال تو تھے ہی۔ تیسرے روز پہلے تو بقدرِ طاقت چلتے رہے اور پھر طاقت بالکل جواب دے گئی پہلے ابو زہیر بوڑھا بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ ہم نے اسے اُٹھانا چاہا لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ ہم اسے وہیں چھوڑ کر آگے چل پڑے لیکن تقریباً ایک فرسخ دور جا کر میں بھی بے ہوش ہو گیا۔ تیسرا ساتھی آگے نکل گیا۔ تھوڑی دور جا کر اسے ایک کشتی نظر آئی تو اس نے رومال ہلا ہلا کر کشتی والوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس پر کشتی والے برتن میں