کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 45
سفری مصائب کے سلسلہ میں جو علم کی خاطر پیش آئے بہت کم واقعات ان لوگوں سے منقول ہیں اور جو ہیں وہ بھی اتفاقًا، بر سبیل تذکرہ یا کسی خاص اعلیٰ مقصد کے تحت بیان کئے گئے ہیں ۔ جیسا کہ قرآن مجید میں موسیٰ علیہ السلام کا یوشع علیہ السلام بن نون سے یہ کہنا بیان ہوا ہے، اٰتِنَا غَدَآءنَا لَقَدْ لَقِيْنَا مِنْ سَفَرِنَا ھٰذَا نَصَبًا کہ کھانا لاؤ، اس سفر سے تو ہم بہت تھک چکے ہیں ۔ موسیٰ علیہ السلام کا یہ قول اگرچہ تکان وغیرہ کا اتفاقاً ذکر تھا لیکن قرآن نے اس کا ذِکر اس لئے کیا ہے کہ اس (تکان اور بھوک) کے احساس سے بعد میں بڑے بڑے واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ بہرحال طالب علم کی خاطر ان لوگوں نے جس قدر مصیبتیں جھیلیں ، اگر آج کل کی طرح ان دنوں علماء میں ڈائریاں لکھنے کا رواج ہوتا اور وہ اپنے سوانحی واقعات کو جمع رکھنے کا اہتمام فرماتے تو آج یقیناً تاریخ انہی صعوباتِ سفر کے ابواب سے پُر ہوتی۔ تاہم جو واقعات ملتے ہیں ان سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ علم کی خاطر ان لوگوں نے کس قدر محنتیں کیں اور تکالیف اُٹھائیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جو گھنٹوں بڑے صحابہ کے دروازوں پر مسئلہ پوچھنے کی غرض سے کھڑے رہتے، لیکن دستک دیتے نہ بلاتے، کہ کسی کام کی غرض سے یا نماز وغیرہ کے لئے خود ہی باہر نکلیں گے تو مسئلہ پوچھ لیں گے اور صحابہ جب آپ کو اپنے دروازے پر کھڑے ہوئے پاتے و معذرت کرتے لیکن آپؓ ثواب کی نیت سے اسے ٹال جاتے۔ (جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البّر) ذیل میں ہم ابو اتم رازی رحمہ اللہ کے ایک دو قصے نقل کرتے ہیں جو ان کے صاحبزادے نے اپنی کتاب جرح و تعدیل کے مقدمہ میں رج کئے ہیں ۔ جن سے یہ اندازہ ہو سکے گا کہ محدثین کرام کو اپنے رحلات کی کتنی قیمت ادا کرنی پڑتی تھی اور کس قدر شدائد اور تکالیف کا سامنا کر کے یہ لوگ پروان چڑھتے تھے۔ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں : ’’میں ۲۱۴ھ میں آٹھ ماہ بصرہ میں رہا۔ یہاں میرا ایک سال کا پروگرام تھا لیکن خرچ ختم ہو گیا تو میں ایک ایک کر کے اپنے کپڑے بیچنے لگا حتیٰ کہ تمام کپڑے ختم ہو گئے تاہم میں حسبِ دستور اپنے ایک دوست کے ساتھ اساتذہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور شام تک سبق میں مشغول رہا۔ شام کو واپس اپنی قیام گاہ پر آگیا۔ کھانے کے لئے کوئی چیز نہ تھی اور میں صرف پانی پی کر لیٹ گیا۔ دوسرے روز پھر وہی دوست آگیا جس کے ساتھ میں سخت بھوک کے باوجود شام تک شریکِ سبق رہا اور پھر ہم اپنی قیام گاہ پر