کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 44
’’امام بخاری رحمہ اللہ کے شاگرد فربری رحمہ اللہ سے تقریباً نوے ہزار شاگردوں نے صحیح بخاری پڑھی۔‘‘ یحییٰ بن جعفر بیکندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیخ علی بن عاصم کی مجلسِ درسِ حدیث میں تیس تیس ہزار نفوسِ قدسیہ پروانہ وار سر دُھن کر تقریر سنتے تھے اور ہمہ وقت علوم و معارف کا غلغلہ اور تذکرہ رہتا تھا۔‘‘ یزید بن ہارون رحمہ اللہ نے جب بغداد میں درسِ حدیث دیا و اس میں ستر ہزار حاضرین کا تخمینہ کیا گیا۔ ایک مرتبہ سلیمان بن حرب رحمہ اللہ کے لئے بغداد میں قصرِ خلافت کے قریب ایک مرتفع جگہ مثل منبر تیار کی گئی تاکہ اس پر بیٹھ کر حدیث لکھائیں ۔ اس مجلس میں امیر المومنین مامون الرشید اور تمام امرائے خلافت حاضر تھے۔ جو لفظ امام ممدوح کے منہ سے نکلتا تھا اس کو امیر المؤمنین اپنے قلم سے لکھتے جاتے۔ جب کل حاضرینِ درس کا تخمینہ کیا گیا تو چالیس ہزار نفوس اندازے میں آئے۔ امام عاصم بن علی املائے حدیث کے لئے بغداد سے باہر نخلستان میں ایک بلند چبوترے پر بیٹھتے تھے۔ ان کے مستملی (جو استاد سے سن کر شاگردوں کو اونچی آواز سے لکھائے) ہارون نے اپنے کھڑے ہونے کے لئے ایک خم دار کھجور کا درخت پسند کر رکھا تھا۔ خلیفہ معتصم باللہ نے ایک بار اپنا معتمد اس مجلس کے شرکاء کا اندازہ کرنے کے لئے بھیجا۔ معتمد نے ارشادِ خلافت کی تعمیل کی تو ایک لاکھ بیس ہزار حاضرین کی تعداد شمار میں آئی۔ ذرا قیاس کیجئے کہ جس قوم کے افراد ایک ایک مجلس علمی میں سوا سوا لاکھ کی تعداد میں جمع ہو جائیں اس قوم کے سینے میں کتنا شوقِ علم بھڑک رہا ہو گا اور پھر اس امر کا بھی اندازہ کیجئے کہ جو شہر اپنے سوا سوا لاکھ باشندے ایک علمی جلسہ میں بھیج دے وہ کس قدر آباد ہو گا۔ (بحوالہ عیون الانباء، ج ۲ ص ۶) رحلہ کی مشکلات: موجودہ زمانے میں حصول علم کے لئے جس قدر سہولتیں میسر ہیں ، اس زمانے میں موجود نہیں تھیں بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ علم حاصل کرنے کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں حائل تھیں ۔ لیکن علم کی خاطر یہ لوگ ان رکاوٹوں کو ہنسی خوشی برداشت کر لیتے تھے۔ گویا کہ انہوں نے خود کو مندرجہ ذیل ارشادِ الٰہی کا پورا مصداق بنایا: یٰٓاَیُّھَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْهِ یعنی اے انسان تو اپنے رب کی طرف محنت کرنے والا ہے۔ پھر تو اسے ملے گا۔ اور مسلمان کی شان بھی یہی ہے کہ اپنے رب سے ملاقات کی امید میں جب وہ کوئی کام کرتا ہے تو اس سے اکتاہٹ یا بے صبری تو کجا، اس رستہ کی تکالیف کا زبان سے اظہار بھی مناسب نہیں سمجھتا۔ یہی وجہ ہے کہ