کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 43
اسلامی افکار کی تبلیغ اور انسانی فلاح کے لئے سنہری موقع: مغرب میں آج کل نئی تہذیب (ماڈرن ازم) کے نتیجہ میں جو شدید بے چینی پائی جاتی ہے اس کا اندازہ وہاں کے قتل اور خود کشی کے واقعات سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ مختصراً ہم نے عصری تحقیقات کے متعلق اس مضمون میں بیان کیا ہے اس کو بھی سامنے رکھ کر ناظرین پر بخوبی عیاں ہو سکتا ہے کہ موجودہ دور میں اسلام کے افکار کی تبلیغ کے لئے ایسا آسان اور سنہری موقع ہے کہ تاریخ اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم اس سنہری موقع سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور حاملِ قرآن ہونے کے باوجود اس کی برکات سے عاری اور دنیا میں ذلیل و رسوا ہیں ۔ خداوند کریم ہمیں قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور موجودہ روشن دور کی تاریکیوں کے خلاف کمربستہ ہونے میں ہماری امداد و نصرت فرمائیں ۔ آمین ثم آمین۔ رحلۂ علم قسط (۴) آخری مولانا ثناء اللہ بلتستانی کثرتِ مرتحلین: اسلامی قرونِ اولیٰ، وسطیٰ اور متاخرہ ہر زمانہ میں یہ رواج رہا ہے کہ علم کے شائقین کثیر تعداد میں علمی مراکز میں آس پاس سے جمع ہوتے تھے۔ دورِ خلافتِ راشدہ تک تو حجاز میں زیادہ رونق رہی۔ بعد ازاں عراق، خراسان شام، بلخ، بخارا وغیرہ بھی علمی مراکز بن گئے جہاں سے یہ علمی دولت مشارق الارض و مغاربہا میں پھیلی۔ یہاں اس عنوان کے تحت صرف چند ایک مقامات کا ذِکر کیا جاتا ہے جس سے قارین یہ اندازہ لگا سکیں گے کہ یہ لوگ کس قدر علم کے شوق میں ہر طرف سے کھنچے چلے آتے تھے۔ چنانچہ مولانا حبیب الرحمٰن شروانی رحمہ اللہ اپنی تالیف ’’علماء سلف و نابینا علماء‘‘ کے ص ۵ میں لکھتے ہیں :