کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 41
پیرس کی یہ حالتِ زار سوشلزم اور کیپٹلزم دونوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ تعجب ہے کہ اس مہذب اور بین الاقوامی شہرت کے حامل شہر میں رات کو اکیلی عورت اس طرح خطرہ میں ہوتی ہے۔ چوریوں کے اعداد و شمار: ترقی پذیر ممالک میں سے روس اپنے جرائم کے اعداد و شمار یا تو چھاپتا ہی نہیں یا صحیح نہیں چھاپتا اور وہاں سنسر شپ بھی سخت ہے۔ اس لئے ہم مثال کے طور پر امریکہ کو لیتے ہیں کیونکہ چین نے بھی اعداد و شمار دینے بند کر رکھے ہیں ۔ امریکہ میں ۱۹۶۵ء میں ۹۰۰، ۱۱۱۸ ڈا کے پڑے ۱،۱۷۳،۰۰۰ چوریاں ہوئیں ۷۶۲،۴۰۰ بڑے درجہ کی چوریاں تھیں ۔ علاوہ ازیں ۴۸۶،۶۰۰ کاریں چوری ہوئیں اور ان تمام واقعات میں نقصان کا اندازہ ایک بلین ڈالر یا پانچ ملین روپے ۱۰۰۰،۰۰۰،۰۰۰ یعنی ایک ارب روپے بنتا ہے[1] وہاں کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے۔ وہاں کی پولیس چوکنا اور جدید سائنسی آلات اور طریقوں سے پوری طرح لیس ہے۔ حال ہی میں بعض شہروں میں جرائم کی روک تھام ہیلی کاپٹروں سے سڑکوں اور مکانوں کی نگرانی رکھ کر کی جا رہی ہے لیکن اس کے باوجود بھی چوریوں کا یہ عالم ہے کہ اگر کہیں پولیس منظم اور اچھی تنخواہ پانے والی نہ ہو تو نہ معلوم کیا حشر برپا ہو۔ یہ تو تھا بڑی چوریوں کا حال، اب چھوٹی چوریوں کا سنئے۔ آج کل کے زمانہ میں خریدار، دوکانداروں کی اندھا دھند چوریاں کر رہے ہیں ۔ (Stealing Super Markets) حتیٰ کہ ہر سال اسی طرح سے ۲۵۰ بلین ڈالر یعنی ۱۲۵۰ ملین روپے ۱۲۵۰،۰۰۰،۰۰۰ یا سوا ارب روپے کی مالیت کا سامان چوری ہو جاتا ہے۔ [2] ان چوریوں میں غریب، امیر، گھریلو عورتیں ، غرض سوسائٹی کے ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ دکانداروں کی چوریاں کرنے والے ان کے بے ایمان ملازم ہوتے ہیں ۔ یہ بے ایمان ملازم بھی تقریباً اتنی ہی رقم کی چوریاں کر ڈالتے ہیں ۔
[1] P.15, THE CRIME PROBLEM by W.C. RECKLESS [2] محولہ بالا P. 165 ibid