کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 4
ہونا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ عوام کی آپ بیتی بہت بڑی قوتِ حاکمہ ہے اور وہ جو بھی فیصلہ کریں گے، پائیدار ہو گا اور جو بھی ان کے ساتھ کوئی سودا کر کے آئے گا، ادھار نہیں کر سکے گا۔ نقد پیش کرے گا اور نقد ہی وصول کرے گا۔ اس کے بجائے دوسری پارٹیاں جب بر سر اقتدار پارٹی کا شر پسندانہ تعاقب کرنا شروع کر دیتی ہیں تو اس سے غلط سلسلے چل نکلتے ہیں جو کسی کے لئے بھی خوش آئند نہیں رہتے۔ اس لئے بہتر یہ ہے بلکہ یہ ملک دوستی کا تقاضا ہے کہ جو بھی فریق بر سر اقتدار آئے، اس سے پورا پورا تعاون کیا جائے اور ان کو تھام کر چلنے کی کوشش کی جائے تاکہ وہ ملک جو ہم سب کا ملک ہے اس کا بھلا ہو پھر اس کے باوجود بھی اگر کوئی پارٹی ناکام رہتی ہے تو یہ اس کی نا اہلی اور بد نصیبی ہو گی اور یہ اپنے آپ مر جائے گی۔
ان گزارشات سے ہمارا مقصود یہ نہیں کہ تعمیری تنقید بھی نہ کی جائے بلکہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تنقید کے انداز سے یہ مترشح ہونا چاہئے کہ آپ کسی کو تھام رہے ہیں ، گرانے کی کوشش نہیں کر رہے ایسی ہی تنقید بنانے اور سنوارنے کا کام دے سکتی ہے اور اسی میں قوم کا، ملک کا، عوام کا، اربابِ اقتدار کا، اپوزیشن کا بلکہ ملک کی ہر ذی روح اور ہر غیر ذی روح شے تک کا بھلا ہے کیونکہ اس کی برکتیں اور رحمتیں جب عام ہو جاتی ہیں تو اس سے دریا کی مچھلیاں صحراء کے کیڑے مکوڑے اور کھیت کی جھاڑیاں تک فیض پاتی ہی۔
(۱)
جناب مسٹر غلام احمد پرویز بڑے ذہین آدمی ہیں ۔ اردو ادب میں ان کو خاصی دستگاہ حاصل ہے اسلامیات کے سلسلہ میں ان کے مطالعہ کا زیادہ تر دارومدار عربی کی بجائے اردو تراجم پر ہے۔ مغرب سے مرعوب ہیں ۔ اہلِ مغرب کو دو چار صلواتیں سنا کر انہی کے نظریات کو قرآن و حدیث کے منہ سے اگلواتے ہیں ۔ اسلام، اکابرِ دین، حدیث، فقہ اور علمائے امت کے خاص کرم فرما ہیں ۔ ان کے معاملہ میں آپ کے قلم کو وہی حیثیت حاصل ہے جو مخالفینِ بنی امیہ کے لئے حجاج کی تلوار کو اور میدانِ کربلا میں حسینیوں کے خلاف یزیدیوں کی یورش کو حاصل تھی یعنی مسٹر پرویز واحد بزرگ ہیں جو اپنے ماضی، اپنے اسلاف اور ان محیر العقول تخلیقات پر فخر کرنے کے بجائے شرمسار ہیں اور جو اپنی ملّی روایات کا مذاق اُڑانے کو کارِ ثواب اور خدمتِ قرآن تصور کرتے ہیں۔