کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 38
ترجمہ: اُلٹی بات یہ ہے کہ کچھ ہم جنسی میں مبتلا مرد کہتے ہیں کہ ان کے لئے عورت سے ہم بستری کا خیال بھی قابلِ نفرت ہے اور عورت کی شرمگاہ کے بو سے کا خیال بھی ان میں نفرت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ لیکن یہ لوگ مردوں کی شرمگاہوں پر کام و دہن کا استعمال کر کے ان کو منزل کرنے یا ان کی مقعد کو چاٹنے جیسی حرکات کرنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ مندرجہ بالا حقائق پر نظر ڈالنے کے بعد اپنے ملک کے ان نیم تعلیم یافتہ لوگوں (نیم تعلیم یافتہ اس لئے کہ ان کی اکثریت صرف مشین کے طور پر یا روپیہ کمانے کی غرض سے تعلیم حاصل کرتی ہے ورنہ نہ ان کو علم کا ذوق ہوتا ہے اور نہ کتابوں کا) کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے جن کی ایک بڑی تعداد مغربی افکار کو وحیِ الٰہی سے بھی بلند درجہ دے کر ان کے پیچھے اندھا دھند اور دیواہ وار دوڑتی چلی جا رہی ہے اور رفتہ رفتہ ذہنی غلامی کی انتہاء تک پہنچ چکی ہے۔ اسی طرح کی ایک صاحبہ نے جو چند ماہ انگلینڈ میں گزار آئی تھیں ، انگریزوں کے دفاع میں ایک مرتبہ فرمایا کہ ’’وہ لوگ سؤر کھاتے ہیں لیکن وہ سؤروں کو غلاظت نہیں کھانے دیتے۔‘‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یورپ میں لاکھوں مویشی ان سؤروں سے ہی Foot and Colt کی وبائی بیماری میں مبتلا ہو کر مرتے ہیں ۔ تاہم اگر فرض بھی کر لیا جائے کہ وہاں کے سؤر Sterlized کھانا اور پانی استعمال کرتے ہیں تو بھی اس سے سؤر کی فطرت تھوڑی بدل جاتی ہے؟ اگر کسی بلّی کو صرف دودھ پلا کر پالا جائے تو کیا اس کی گوشت خوری کی فطرت ختم ہو جائے گی؟ ہرگز نہیں ! اسے جب بھی موقع ملے گا وہ اپنی اس فطرت کا آزادانہ استعمال کرے گی۔ پاکستان کے مشہور صحافی ڈاکٹر عبد السلام خورشید نے ہمیں ایک محفل میں بتایا کہ ایران کا شمار اگرچہ اسلامی ممالک میں ہوتا ہے تاہم وہاں بھی خنزیر خوری اس قدر عام ہے کہ جب ہم شاہ کی تاج پوشی کے رسم کے موقع پر ایران گئے تو اس مختصر سے عرصہ میں بھی باوجود نہایت احتیاط کے تین مرتبہ غلطی سے سورسؤر کا گوشت چکھنے میں گرفتار ہوئے۔ ایک ایران ہی کا ذکر کیا، دوسرے کئی اسلامی ممالک بھی مغرب کی نقال میں حد درجہ ملوّث ہیں ۔