کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 37
’’جنگ عظیم کے بعد امریکہ، انگلینڈ، جرمن اور سکنڈے نیویا میں بڑی تبدیلی آگئی ہے با عزت خاندانوں کی کثیر (very-many) لڑکیاں اب اس کو ضروری (worth while) نہیں سمجھتیں کہ عصمت کی حفاظت کی جائے اور نوجوان اب رنڈیوں کے پاس جانے کے بجائے ایسی لڑکیوں سے تعلقات قائم کر لیتے ہیں جن سے کہ اگر وہ امیر ہوتے تو شادی کے خواہش مند ہوتے۔۔۔۔ امریکہ میں بہت ہی کثیر تعداد میں (A very large percentage) لڑکیاں کئی کئی عاشق بنا لیتی ہیں اور بعد میں شادی کروا کے بہت ہی با عزت بن جاتی ہیں ۔‘‘ [1] یورپ کی ان ہی حماقتوں کی بناء پر leopold Asad نے مغربی تہذیب کو ’’کانا دجّال‘‘ کہا ہے جو صرف ایک آنکھ سے دیکھتی ہے اور دوسری آنکھ اس کی ہے ہی نہیں ۔ چنانچہ نتیجۃً نہ صرف خود مضحکہ خیز بن کر رہ گئی ہے بلکہ دوسروں کو بھی تباہی کے گڑھے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ خنزیر خوری اور جنسی گندگی: دنیا جانتی ہے کہ سؤر ایک ایسا جانور ہے کہ غلاظت اور فضلہ جس کا من بھاتا کھا جا ہے۔ پس جو لوگ اس کا گوشت کھاتے ہیں ان میں یہ اثرات آنے لازمی ہیں ۔ چنانچہ CAPRIO نے اپنی کتاب Variations in Sexual Behaviour میں مختلف جنسی عادتوں کا ذِکر کیا ہے جو مغربی دنیا میں عام ہیں ان میں سے ایک ANILINGUS ہے جس کے معنی میں وہ لکھتا ہے کہ یہ ایسی عادت ہے کہ جس میں کوئی شخص دوسرے انسان کے خاص پاخانہ نکلنے کے مقام کو زبان سے چاٹ کر لطف اندوز ہوتا ہے۔ سؤر کا گوشت کھانے والوں میں ایسے لوگوں کا پیدا ہونا کوئی زیادہ تعجب کی بات بھی نہیں ۔ یورپ میں لواطت کا عام رواج بھی خنزیر خوری ہی کا کرشمہ ہے۔ چنانچہ اب تو وہاں مردوں کی مردوں سے شادیاں بھی ہونے لگی ہیں ۔ ایسے لوگوں کے متعلق مصنف مذکور لکھتے ہیں کہ: ““Paradoxically some homosexuals claim that the idea of having sex relations with a woman is revolting. The mere mention of cunnilingus disgusts them. Yet they have no reluctance to performaing fellatio to completion or performing anilingus on men.”
[1] Variations in Seual Behaviour by F.S. Caprio M.D. Page, 93