کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 35
فعل یعنی جماع کا قائم مقام بن جائے اور صرف اسی پر اکتفا کی عادت ہو جائے۔ [1] بیعت کا انوکھا طریقہ: آج کل ہی نہیں بلکہ قرونِ وسطیٰ میں بھی یورپ میں بہت سے عیسائی مذہبی فرقے اور جماعتیں ایسی تھیں جن میں بیعت کا طریقہ یہ رائج تھا کہ مرید کو مرشد کی مقعد کا بوسہ لینا پڑتا تھا۔ دریں حالات ہم کہتے ہیں کہ ایسی گندہ اور نجس قوموں کے ہاتھ کے ذبیحے کا تو سوال ان کے ہاں کے بنے ہوئے بسکٹوں وغیرہ کا خیال کر کے بھی ہمیں متلی ہوتی ہے۔
[1] Ideal Marriage by Vele. M.D. Published by Heinemann Medical books Page 148, 149. قارئین کو متعجب نہیں ہونا چاہئے کیونکہ گندگی تو یورپین نسلوں کا قدیم خاصہ ہے۔ جو لوگ اعضائے تناسل کی پوجا کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک ان اعضاء کی گندگی سے پرہیز کے کیا معنی؟ چنانچہ ریفر کپریو (Refer Caprio M.D) اپنی کتاب ’’Variations in Sexual Behaviour‘‘ کے صفحہ ۲۰۹ میں ایک امریکی کا بیان لکھتا ہے: ’’I swallowed the semen during excitement‘‘ یعنی میں نے جوش میں آکر مادۂ تولید کو بھی نگل لیا۔ نیز اس کتاب میں امریکہ کے ایسے لوگوں کا ذکر بھی ہے جو دوسروں کو یا اپنی بیویوں کو کہتے ہیں کہ ہمارے منہ میں پیشاب کرو اور اس طرح پیشاب سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ص ۲۷۸۔ مندرجہ بالا نجس عادات و افعال کے علاوہ بھی بہت سی ایسی باتیں ہیں جو آج کل کی اس مہذب اور متمدن قوم میں پائی جاتی ہیں اور جن کا ذکر بھی ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔ تاہم چند باتیں اس لئے درج مضمون کر دی گئی ہیں کہ موجودہ دور میں یورپ کی تقلید میں اندھا دھند بھاگنے والے مسلمان، تہذیب یورپ کے ان ناؤ شاہکاروں سے واقف ہو کر بآسانی یہ اندازہ لگا سکیں کہ جو لوگ بہ ظاہر ایک پلیٹ میں مل کر کھانا کھانے کو صفائی کے منافی اور اصول صحت کی رو س قابلِ اعتراض سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں کا باطن کس قدر غلیظ اور مکروہ ہے۔ تعجب ہے کہ اس قدر نجس اقدار کے حامل لوگ مسلمانوں پر ایک برتن میں کھانے اور کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کی وجہ سے عن کرتے ہیں حالانکہ جدید سائنس بھی جس پر ان کو بہت ناز ہے چمچ کے بجائے ہاتھ سے کھانے اور کھانے کے بد انگلیاں چاٹنے کو صحت وار نظامِ ہضم کے لئے نہایت مفید قرار دے چکی ہے۔ (ادارہ)