کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 33
روشن دَور کی تاریکیاں مادی سائنس اور فلسفے کے شاخسانے قسط(۲): آخری جناب ریاض الحسن نوری ایم۔ اے۔ جدید تہذیب اور قتلِ جنین: قتلِ جنین (Abortion) کا رائج العام ہونا نہ صرف کسی معاشرے کے جنسی فساد کا ثبوت ہوتا ہے، بلکہ فطرت سے یہ طریقِ تصادم بتاتا ہے کہ انسایت کے اعلیٰ جذبات اور قیمتی اقدار کی تباہی ہو چکی ہے۔ مغربی معاشروں میں قتلِ جنین ایک کھیل بن چکا ہے۔ وہاں ادارہ ہائے اسقاط کو لفظ ’’مِل‘‘ (Mill) بہ معنی کارخانہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یعنی کارخانہ ہائے قتلِ انسانِ نامولود۔ ان ترقی یافتہ اداروں کی رفتارِ کار اتنی تیز ہے کہ ’مریضہ‘ داخل ہونے کے آدھ گھنٹے بعد اپنے بارِ رحم سے فارغ ہو جاتی ہے۔ ایک پروبیشن افسر نے ایک ڈاکٹر سے دریافت کر کے بیان کیا ہے کہ وہ ہفتہ کے روز ایسے کیس ۴۵ کر لیتا ہے۔ اوسطاً اس خدمت کو انجام دینے والے ڈاکٹر سالانہ ۵،۴ ہزار کیس کرتے ہیں ۔ بہت سے کیس پرائیویٹ اداروں کے پاس جاتے ہیں ۔ لیکن اگر کوئی معاملہ بگڑ جائے تو پھر سرکاری ہسپتالوں کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ مجموعی طور پر مغربی دنیا میں قتلِ جنین یا اسقاط کے واقعات کی سالانہ تعداد لاکھوں سے گزر کر کروڑوں تک پہنچتی ہے۔ روس میں ۱۹۵۵ء تک اسقاط کرنا کرانا خلاف قانون تھا لیکن ۲۳/ نومبر ۱۹۵۵ء کو ایک قانون کے ذریعے مستند (qualified) ڈاکٹروں کے ہاتھوں اسقاط کرانا جائز کر دیا گیا۔ روس میں رہائشی انتظامات کی کمی، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی یکجائی اقامت اور مرد و زن کے اختلاطِ عام نے قتلِ جنین کی مصیبت آہستہ آہستہ عام کر دی ہے۔ پہلے غیر قانونی صورتوں میں اور اب قانونی راستے سے! [1]
[1] The Sovit Regime – by W.W. KULSKI (P.156) افسوس یہ ہے کہ وحی کی روشنی کے بغیر یہ تاریکیاں انہیں محسوس بھی نہیں ہوتیں اور اگلے پچھلے سبھی عقل کے پجاری انہی گڑھوں میں گرتے ہیں۔ یہاں تو جدید تہذیب کا ذِکر ہو رہا ہے۔ پرانا عقل کا پرستار فلسفہ بھی ایسی ہی گمراہیوں کا مبلغ رہا ہے جیسا کہ اس بارے میں افلاطون کے اس مشورے سے ظاہر ہے کہ فالتو بچے قتل کر دیئے جائیں۔