کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 32
نصابِ تعلیم کے اثرات طلبہ پر:
طلبہ پر اس طرزِ تعلیم، نصاب اور ماحول کا یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ ان میں قدامت پرستی اور جمود پیدا ہو جاتا ہے۔ کج بخشی، لفظی دیدہ ریزی اور نکتہ چینی کی عادت ہو جاتی ہے۔ تجربہ و استقراء اور عام تفحص کا بلکہ بالکل ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اصل فنون سے قدیم و جدید دونوں حیثیتوں سے بیگانگی پیدا ہو جاتی ہے۔ کسی شے کو اس کی حقیقی شکل میں دیکھنے کی طاقت چلی جاتی ہے۔ فنون کے اصل ماخذوں کا علم نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی جائے تو فائدہ اُٹھانے کی مہلت میسر نہیں آتی اور اگر یہ سب بھی ہو و وہ خلاف ذوق واقع ہوتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ذہنی قوتوں کا نشوونما ضرور ہوتا ہے مگر غلط سمتوں میں اور یہ نشوونما تاوقتیکہ صحیح سمتوں کی طرف منعطف نہ ہو جائے، علمی اور عقلی حیثیت سے غیر مفید اور عام حالات میں مضر ہے۔ خصوصاً موجودہ مادی اور عقلی دَور میں ۔
(جاری ہے)
بڑھ جاتے ہیں اشغال تو راحت نہیں رہتی
(عبد الرحمٰن عاجزؔ)
ایمان کی جب دل میں حرارت نہیں رہتی حق بات کے اظہار کی جرأت نہیں رہتی
جب پاس کسی کے بھی یہ دولت نہیں رہتی پھر حال پہ کیوں اپنے قناعت نہیں رہتی
جب اپنی خطاؤں پہ ندامت نہیں رہتی پھر کوئی بھی اصلاح کی صورت نہیں رہتی
آجاتے ہیں جب اپنے گناہ اپنی نظر میں پھر دل میں کسی سے بھی کدورت نہیں رہتی
بڑھتا ہے اگر مال تو بڑھ جاتے ہیں اشغال بڑھ جاتے ہیں اشغال تو راحت نہیں رہتی
کر لیتا ہے اصلاح جو اعمال کی اپنے اس شخص پہ پھر کوئی ملامت نہیں رہتی
عریانی و فحاشی دکھائی نہیں دیتی جب نورِنگہ، دل کی بصیرت نہیں رہتی
صحت ہو کہ بیماری فقیری کہ امیری انسان کی قائم کوئی حالت نہیں رہتی
ہو جائے بشر مرضیٔ مولا پہ رضا مند پھر کوئی مصیبت ہو مصیبت نہیں رہتی
انسان کی صورت میں درندہ ہے وہ انساں انسان سے جس انساں کو محبت نہیں رہتی
گھِر جاتا ہے ہر ایک برائی میں وہ عاجزؔ
نیکوں کی میسر جسے صحبت نہیں رہتی