کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 31
کی جاتی ہے جو عام طور پر کامیاب باہمی تطبیق پر منتج ہوتی ہے لیکن ان تطبیقات میں اصل مفہوم اوجھل ہوتا رہتا ہے۔ کتاب کی ہر ایک سطر پر اساتذہ کرام اس نوعیت کی تقاریر ہفتوں بلکہ مہینوں تک کر سکتے ہیں جو ان کی قابلیت کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ بعض قدیم اساتذہ جو یک فنی ہونے کی بجائے یک کتابی بھی ہوتے ہیں وہ واقعتاً مہینوں تقریر کرتے بھی ہیں ۔ ہمارے ایک مشفق اور مہربان شرح جامی کا درس ۳۷ بار دے چکے ہیں اور وہ اس پر بے حد نازاں ہیں ۔ بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ شرح جامی کے ہر ہر جملے پر کئی کئی روز بلا تیاری تقریر کر سکتے ہیں ۔ لیکن اکثر اساتذہ اس قدر ’’ماہر‘‘ نہیں ہوتے تاہم بعض مقامات کی تقاریر تو وہ بھی دو دو تین تین روز تک چلا ہی سکتے ہیں ۔ اب چونکہ یہ ’’مہارت‘‘ کم ہوتی چلی جا رہی ہے۔ اساتذہ اور طلبہ دنیا بھر کی شروح اور حواشی نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی اس قدر مطالعہ کر سکتے ہیں اس لئے تقریر میں اختصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اگرچہ ایک روشن خیال طبقہ اس طرزِ تدریس سے متنفر ہے۔ ان کی کشش ہے کہ محض کتاب کو اس کے مطالب تک پڑھانے کی کوشش کی جائے۔ گو یہ طریقہ عام طلبہ کے لئے دلکش نہیں ہے اور قدیم اساتذہ کے نزدیک علمی مہارت کے خلاف ہے مگر یہ ’جدت پسند‘ اساتذہ اس قدر آگے بڑھے ہیں کہ اصلاح کی بجائے محض ترجمے میں آن پڑے ہیں ۔ ان کے نزدیک تعلیم کی آخری سیڑھی معمولی تشریحات سے کتاب کا لفظی ترجمہ کر دینا ہے۔ جو طلبہ کے اذہان کے لئے مزید زہرِ قاتل ہے۔ کتب دہی قدیم، طرزِ تعلیم جدت میں ڈھلی ہوئی اور علم سے کرا پن اس تعلیم کی خصوصیات ہیں ۔ بہرحال ہمارے قدیم مدارس کا یہ طرز تعلیم اپنی اصل کے اعتبار سے متاخرین کے اس طرزِ تحشیہ سے ماخوذ ہے جن کو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ۔ یہ طریقِ درس (جو اَب کچھ تبدیل ہوتا جا رہا ہے خدا کرے اصل اہمیت کی طرف تبدیل ہو) کسی حیثیت سے بھی مفید اور نفع بخش نہیں ہے۔ نہ تو طلبہ میں فنی بصیرت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی کتاب فہمی کی استعداد۔ نہ مسائل یاد رہتے ہیں اور نہ ہی مباحث، مسائل اور مباحث آپس میں مخلوط ہو جاتے ہیں ۔ نیز مباحث اپنے تنوع اور طوالت کی وجہ سے حافظے میں محفوظ نہیں رہ سکتے اور اس طویل مدِ درس میں جو کم از کم استعداد پیدا ہوتی ہے۔ اس کو تکمیل درس کے بعد تاوقتیکہ از سر نو مطالعہ اور کتب بینی سے ترقی نہ دی جائے تو یہ بالکل بے کار رہتی ہے بلکہ کچھ عرصہ بعد ضائع ہو جاتی ہے۔