کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 30
گئے ہیں جن میں صرف لفظی مباحث اور عقلی نکات رہ گئے ہیں ۔
طرزِ تعلیم پر ایک نظر:
؎ مکتبوں میں کہیں عنائی افکار بھی ہے؟ خانقاہوں میں کہیں لذتِ اسرار بھی ہے؟
آج کل ہمارے مدارس کی تمام تر تعلیم کتابی ہے۔ جن فنون کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کی صرف کتابیں ہی پڑھائی جاتی ہیں ۔ داخلِ درس کتابوں کو ہی اصل فن خیال کیا جاتا ہے۔ بالعموم اساتذہ کرام کے اپنے معلومات بھی فنی ہونے کی بجائے مخصوص کتب پر ہی منحصر ہوتے ہیں ۔ اور وہ خود بھی نئی فنی معلومات اور ارتقائی حرکتوں سے اتنے ہی ناواقف ہوتے ہیں جتنے طلبہ۔ ان کی فنی بصیرت اور علمی مہارت کے معنی مخصوص اور زیرِ درس کتب اور ان کے حواشی کا علم ہے۔ طالب علم زیرِ درس کتاب کو پڑھتا ہے اور استاذ اس مقام پر اپنی تقریر کرتا ہے۔ اس تقریر میں نہ صرف کتاب کی عبارت ہی زیر نظر ہوتی ہے۔ بلکہ وہ تقریر خالص اس عبارت کا ترجمہ ہوتا ہے اور صرفی، نحوی اور بعض اوقات لغوی حیثیت سے اس عبارت پر جو اعتراضات ہوتے ہیں ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ اساتذہ خود بخود کتاب پر تنقیدی نظر ڈال کر اس پر علمی اعتراضات کریں ۔ ہمارے تدریس میں عموماًفن سے غیر متعلق اعتراضات کر کے ان کے جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے جیسے، یہ مسئلہ صاحبِ کتاب نے پہلے ذِکر کیوں کیا ہے اور یہ بعد میں کیوں ؟ اور اس کی تعریف تقسیم سے پہلے کیوں کر دی ہے؟ وغیر ذالک وکثیر ماھی۔ دورانِ درس طلبہ کو صرف یہی حق ہوتا ہے کہ وہ اساتذہ کی تقریر یا اصل کتاب پر اعتراض کریں جس کا جواب دینا اساتذہ کا فرض ہوتا ہے۔
ذہین طلبہ اپنے اس حق کو استعمال بھی کرتے ہیں جس پر کتاب کی اصل عبارت کے نکات بیان کیے جاتے ہیں اور الفاظ فقروں اور جملوں تک کی توجیہ ہوتی ہے۔ گویا مصنف نے ہر ہر لفظ اور ہر ہر طرزِ تعبیر کو نہایت سوچ سمجھ کر اور عجیب و غریب فوائد کو پیش نظر رکھ کر اختیار کر لیا ہے۔ حالانکہ عام قاری کی نظر کسی ایک کی طرف بھی ان میں سے بآسانی نہیں جا سکتی اور عموماً یہ سب نکات پہیلیاں ہوتی ہیں ۔ اسی اثناء میں اس مقام پر اگر کچھ فنی اعتراضات ہوتے ہیں اور ان کے جوابات دیئے جاتے ہیں ۔ تو وہ سب بھی قدیم روایات اور متاخرین کی تشریحات کے تحت ہی ہوتے ہیں ورنہ ان کی حقیقی نوعیت بڑی حد تک مشتبہ ہوتی ہے۔ دوسرے مصنفین کی تشریحات سے جو تعارض پیدا ہوتا ہے۔ اس کی توجیہ کی کوشش تو