کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 29
اختصار کے باوجود بھی ان میں اسرائیلیات اور یونانی اوہام مخلوط ہیں ۔ صحیح روایات کا التزام نہیں ہے بلکہ اکثر مقامات پر تو یہ سمجھنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اگر اسرائیلی روایات سے قطع نظر کر لی جائے اور یونانی تصورات علیحدہ کر لیے جائیں تو خالص عربی اسلوبِ عبارت اور لسانی اصول و قواعد کے تحت ان کا مفہوم کیا ہو گا؟ اور قرنِ اول میں اس کا کیا مفہوم سمجھا جاتا تھا۔ قرآن کریم میں نہ تو صحیح غور و تدبر کی مشق ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے حقیقی حدود متعین ہوتے ہیں بلکہ بر خلاف اس کے رہے سہے راستے بھی بند ہو جاتے ہیں ۔ عقاید و کلام میں جن کتابوں کی تدریس ضروری خیال کی جاتی ہے ان کے ذریعہ اسلام کے ان حقیقی اور بنیادی معتقدات و خیالات تک رسائی حاصل کرنا، جن پر اسلام موقوف ہے، بہت دشوار ہے۔ ان ’عقاید‘ اور ان کی تشریحات اور عقلی توجیہوں کا ڈھانچہ وہ ہے جو اس دور کی مختلف مذہبی فرقوں کی آویزشوں اور فلسفیانہ خیالات کی ذہنی کشمشکوں کے تحت تیار ہوا ہے لہٰذا اگر وہ کبھی مفید تھا تو اب نہیں رہا۔ اس لئے کہ نہ وہ مذہبی فرق موجود ہیں اور نہ ہی ان فلسفیانہ خیالات کی کشمکش ہے۔ فقہ اور اصولِ فقہ جس صورت میں مروج ہیں اور ان کی جو کتابیں موجودہ نصاب میں شامل ہیں وہ اس اعتبار سے نہایت ہی مایوس کن ہیں کہ ان کی نوعیت محض ایک جامد اور تقلیدی فن کی ہو کر رہ گئی ہے جن سے اجتہاد اور اخذ و استنباط کا ملکہ پیدا ہونا تقریباً ناممکن ہی ہے گویا فقہی مسائل اور اصول مسلمہ حقائق ہیں جن پر مکرر غور و فکر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ منطق و فلسفہ وغیرہ عقلی علوم میں جو کتابیں زیرِ درس ہیں ان کی کیفیت گذشتہ صفحات میں بیان ہو چکی ہے جس سے اجاملی طور پر یہ معلوم ہو گا کہ ان میں سے متون و مسائل پر حاوی ہیں جن میں سے بعض اپنے اختصار کی وجہ سے بہت دشوار ہیں لیکن شروح میں صرف لفظی مباحث اور نکتہ آفرینیاں ہیں ۔ علاوہ ازیں ان علوم و فنون میں جو ترمیمیں اور اصلاحات، اضافے اور تنسیخات ہو چکی ہیں (اصولی بھی اور فروعی بھی) وہ قطعاً محتاج تعارف نہیں ہیں ۔ ہیئتِ کلیہ بدل چکی، طبعیات بدل چکی، منطق پر تنقیدی تجزیہ ہوا، اضافے ہوئے، فلسفہ کے مختلف شعبے مستقل بن گئے۔ حساب میں متعدد نئے قاعدوں کا اضافہ ہوا اور ان کے عملوں میں متعدد نئی سہولتیں پیدا ہوئیں لیکن ہمارا نصاب ابھی تک ان تمام تبدیلیوں سے بے خبر ہے اور ہم ان فنون سے ان کی قدیم اور جامد شکل میں چمٹے ہوئے ہیں ۔ گویا عقلی اور تجرباتی علوم بھی الہامی اور منصوص ہیں جن میں ہر قسم کی ترقی اور حرکت ختم ہو چکی ہے اور یہ تکمیل کے اس نکتہ پر پہنچ