کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 28
اس تقسیم سے حدیث و ادب کو ہم نے قصداً خارج کر دیا ہے۔ متونِ حدیث پر مصنفین کے زمانہ کا کوئی اثر نہیں پڑا۔ بقول ابن خلدون علیہ الرحمۃ کسی علم میں مہارت پیدا کرنے کے معنی یہ ہیں کہ اس علم کے مبادی قواعد اور مسائل پر حاوی ہو جانے کی قدرت اور اس کے اصول سے فروع کو استنباط کرنے کا ملکہ پیدا ہو جائے۔ جب تک یہ ملکہ پیدا نہ ہو اس فن میں مہارت پیدا نہیں ہو سکتی۔ (مقدمہ ابن خلدون۔ الفصل السادس من الکتاب الاول فی العلوم واصنافہا والتعلیم وطرقہ۔ الفصل الثانی ص ۴۳۰) اگر ہمارے مدرس کے مروجہ نصابِ تعلیم کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ نہ صرف یہ نصاب علمی مہارت پیدا کرنے سے قاصر ہے بلکہ علم کے صحیح مذاق سے آشنا بنانے کے لئے بھی ناکافی ہے۔ ہمارے نصابِ مروجہ مدارس میں نحوؔ میں کافیہ کم و بیش تمام مدارس میں پڑھایا جاتا ہے۔ اولاً تو کافیہ تمام نحوی مسائل پر حاوی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنے اختصار کی وجہ سے اس قدر مشکل ہے کہ طلبہ کے دماغ پر محض مطلب سمجھنے سے ہی غیر معمولی بار پڑ جاتا ہے۔ اکثر طلبہ تو اس کے نہ سمجھنے کو اپنی کند ذہنی پر محمول کرتے ہیں ۔ جو ان کی ذہنی نشوونما میں بڑی حد تک حائل ہو جاتا ہے اور بالآخر نتیجہ احساس کمتری کی صورت میں نکلتا ہے۔ کافیہ کے بعد بعض مدارس میں شرح جامی داخل نصاب ہے۔ اس دور میں ’شرح‘ کی تصنیف کا مقصد جیسا کہ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں مسائل کی وضاحت نہیں ہوتا تھا لہٰذا اس اعتبار سے تو شرح جامی مفید ہے ہی نہیں کہ وہ مسائل نحو پر حاوی ہو، مزید برآں وہ اس اعتبار سے بھی مفید نہیں کہ اس سے نحوی مسائل کی تحقیق اور اخذ و استنباط میں مدد ملتی ہے۔ گویا کہ نہ تو نحو کی غرض و غایت اور اس کے علم آلی ہونے کے اعتبار سے فائدہ بخش ہے اور نہ ہی فنِ نحو کی اصولی اور ذاتی حیثیت کے اعتبار سے۔ اس میں بجائے اس کے کہ مسائلِ نحویہ کے دلائل اہل زبان کی بول چال سے اخذ کرنے کی اہمیت پر زور دیا جائے اور ان کی صحت و ترمیم کو اہلِ زبان سے سماع پر پرکھا جائے عقلی توجیہیں اور موشگافیاں کی گئی ہیں جس سے طلبہ میں ایک فنی ،مذاق کی بجائے ایک غلط اور غیر فنی مذاق جنم لیتا ہے۔ یہی صورت فن بلاغتؔ کی ہے۔ آٹھویں صدی کی صرف ایک کتاب (تلخیص المفتاح) اپنی دونوں شروح کے زیر تدریس ہے اور وہ بھی ناتمام۔ فن بلاغت کا جو سرسری خاکہ ہم نے پیش کیا ہے اس کو اور متاخرین کی خصوصیات کو سامنے رکھ کر غالباً یہ واضح ہو جائے گا کہ یہ کتابیں کسی حیثیت سے بھی مفید نہیں ہیں ۔ مروجہ نصاب میں جو کتبِ تفاسیر شامل ہیں وہ نہایت ہی مختصر ہیں اور صرف ترجمے کی حد تک مفید اور کار آمد ہیں لیکن اصل قرآن فہمی میں (جو تفسیر کا اصل مقصد ہے) ان کتب سے زیادہ مدد نہیں ملتی۔ اس