کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 27
کرنے لگے۔ تقریباً چھٹی صدی میں عام طور پر مجتہدین ائمہ اربعہ (مالک رحمہ اللہ ، شافعی رحمہ اللہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ ) کے مدارسِ اجتہاد تسلیم کر لیے گئے اور لوگ اپنے آپ کو ان میں سے کسی نہ کسی کی طرف منسوب کرنا ضروری سمجھنے لگے۔ (مقتبس از تقریر استاذ الاساتذہ حافظ محمد صاحب گوندلوی بتقریب بخاری شریف ۱۹۷۱ء جامعہ سلفیہ لائل پور) فقہ میں مدرسیت آنے کے بعد فقہی تصانیف میں بھی مدرسیت نا گزیر تھی چنانچہ بالکل ابتدائی تصانیف کو چھوڑ کر عموماً فقہی کتب کسی نہ کسی خاص فقہی مدرسے سے متعلق ہو گئیں اور بالآخر کتب فقہ میں سے اجتہادی نقطۂ نظر بالکل ہی مفقود ہو گیا۔ جب تک فقہی مدارس کی ابتدائی تصانیف نہ ہوں اس وقت تک پڑھنے والے میں اجتہادی تخیل پرورش نہیں پا سکتا۔ علومِ عقلیہ (منطق و فلسفہ): مسلمانوں میں منطق و فلسفہ کا داخلہ اموی دورِ حکومت میں شروع ہوا اور عباسی دورِ حکومت میں اس کی تکمیل ہوئی۔ شام کے عیسائی، صابی اطباء اور متکلمین ان کے داخلے کا ذریعہ تھے۔ یہ لوگ بالعموم فلسفی نہ تھے اس لئے ان کے تراجم میں فلسفیانہ حیثیت سے صحت بہت ہی مستعبد ہے۔ اکثر خود ان کا ماخذ بھی تراجم تھے یا یونانی فلاسفہ کے خیالات لیکن مخلوط۔ مزید برآں بعض کتابیں غلط طور پر مصنفین کی طرف منسوب۔ بہرحال یہ ذخیرہ تھا جو مسلمانوں کے ہاتھ لگا اور اس پر انہوں نے اپنی عمارتیں کھڑی کر لیں جو ارسطو اور افلاطون کے سر منڈھ گئیں ۔ تاہم ابتداءً فلسفیانہ خیالات ایک حقیقی اور معنوی حیثیت کے حامل تھے مگر آٹھویں صدی میں آکر ان کی یہ حیثیت بھی ختم ہونے لگی۔ اور لفظی مباحث نے ان کی جگہ لینا شروع کر دی۔ بالآخر ابتدائی مسلم فلاسفہ کے خیالات کو یونانی فلاسفہ کے خیالات کی تشریح کے طور پر پیش کیا جانے لگا اور انہیں بے چون و چرا تسلیم کیا جانے لگا اور اس کے بعد لفظی دقیقہ سنجیوں کا برابر اضافہ ہوتا رہا۔ (یونانی علوم اور عرب، گیارہواں باب (سیاسی انقلاب ص ۲۶۸) بارہواں باب ص ۲۸۱) مروجہ نصاب تعلیم پر ایک سرسری تنقیدی نظر: حدیث و قرآن کو چھوڑ کر پور مدارس عربیہ میں مروجہ نصاب تعلیم پر نظر ڈال لیجئے۔ ان کتابوں کے ایک بڑے حصے کی تصنیف آٹھویں صدی سے چودھویں صدی تک کے عرصہ کی ہے جو حصہ اس دور سے قبل (ساتویں صدی) کی تصنیف کا ہے وہ اکثر زیر درس نہیں ہیں اور جو ہیں ان کی ذاتی حیثیت کچھ نہیں ہے بلکہ ان کی شروح ہی سب کچھ ہیں جو بعد کی صدیوں کی تصانیف ہیں جیسے شرح عقائدِ نسفی وغیرہ۔