کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 26
اصولِ فقہ: اصولِ فقہ سے مراد ایسے اصول ہیں جن کی بنا پر دلائل شرعیہ قرآن و حدیث یا قرآن و حدیث اور اجماعِ امّت سے مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے۔ مختصر لفظوں میں اصولِ فقہ، اصول اجتہاد کا دوسرا نام ہے۔ چنانچہ جس کسی نے بھی سب سے پہلے کسی مسئلہ کا استخراج کیا ہو گا اس کے لئے اس کے ذہن میں خواہ غیر شعوری طور پر ہی کیوں نہ ہو۔ کوئی نہ کوئی اصول ضرور ہو گا لیکن جب ضرورتیں بڑھیں اور اصولِ شرعیہ اپنی مختلف اور متضاد صورتوں میں سامنے آئے اور ترجیح، تعارض نیز مختلف محتملاتِ استنباط کی طرف مجتہدین کی نظریں پڑیں اور مختلف مدارسِ اجتہاد نے اس سلسلہ میں اپنے نقطہ ہائے نظر پیش کیے، مجتہدین یا ان کی طرف منسوب علماء نے اپنے اپنے اصولِ اجتہاد مدون کیے تو ہر دائرۂ اجتہاد و مکتبِ خیال کے اصول الگ الگ ہو گئے۔ گو ایسا نہیں ہے کہ ہر دائرہ کے اصول دوسرے کے اصول سے کلیۃً متضاد ہوں تاہم متعدد اصول میں باہم خاصا اختلاف ہے۔ ایسی صورت میں اصول فقہ ایک ایسا فن ہے جس میں ابتداء سے ایک خاص نقطۂ مدرسیت آگیا اور مجتہدین کے استخراجی اصول منتسبین کے لئے اصولِ موضوعہ کی حیثیت اختیار کر گئے۔ (فقہ اور اصول فقہ) فقہ: صحابہ بلکہ تابعین تک بھی فقہ میں خاص مدرسی رنگ نہیں آیا تھا رواۃِ حدیث عام ازیں کہ صاحبِ اجتہاد ہوں یا نہ ہوں ایسے مسائل جن کے متعلق ان کی مرویات میں صحیح احادیث موجود ہوتیں ، احادیث کی سند پر فتویٰ دے دیتے تھے۔ جن مسائل کے متعلق ان کی مروی احادیث نہ ہوتیں تو اپنے سے زیادہ احادیث جاننے والوں کی طرف رہنمائی کر دی جاتی۔ اور اگر کسی مسئلہ کے متعلق مستند احادیث موجود نہ ہوتیں تو مجتہدین صحابہ منصوص مسائل پر قیاس کر کے فتویٰ دے دیتے تھے۔ سائلین کے نزدیک کسی مخصوص صحابی کی اس معنی میں تقریباً کوئی اہمیت نہ تھی کہ وہ تمام تر پیش آمدہ مسائل میں اسی کی طرف رجوع کریں یا اگر ایک دفعہ کسی مسئلہ میں کسی صحابی کی طرف رجوع کیا ہے تو آئندہ ہمیشہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے بلکہ اتفاق و سہولت کے تحت ہر اہلِ علم کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ تابعین کے آخر عہد میں مدارس اجتہاد پیدا ہونے شروع ہو گئے جن میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔ تیسری چوتھی صدی تک جب فقہ پر پوری طرح مدرسیت چھا گئی اور مختلف مجتہدین کے اصول و فروع منضبط ہو گئے تو لوگ اپنے آپ کو کسی نہ کسی مجتہد سے وابستہ