کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 25
گئیں ۔ ان تفاسیر میں الفاظ کی نحوی، صرفی اور لغوی حیثیت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ حتیٰ کہ بعض کتب تفاسیر میں ما سوا تفسیرِ قرآن کے سبھی کچھ موجود ہے۔ (الغزالی۔ مولانا شبلی نعمانی ص ۸۸ مطبوعہ انجمن حمایتِ اسلام لاہور)
عقائد و کلام:
عربی ذہن بدویّت اور سادگی کی بنا پر خدا تعالیٰ اور اس کی تنزیہی و تشبیہی صفات کو باریک بینی اور توجیہ و تاویل کے بغیر اسی طرح تسلیم کرتا تھا جس طرح وہ ثابت تھیں ۔ اس سلسلہ میں ہر دقیقہ سنجی اور غور و خوض بدعت خیال کیا جاتا تھا۔ یہی حالت کائنات کی ان توجیہوں کے سلسلہ میں تھی جو نبی علیہ السلام سے مروی تھیں یا قرآن مجید میں مذکور تھیں ۔ جب مختلف قومیں اور طبقے اسلام سے وابستہ ہوئے اور دوسری طرف غالباً اول یونانی علوم و فنون اور پھر ایرانی اور ہندی خیالات مسلمانوں میں جا گزیں ہونا شروع ہوئے تو اسلامی معتقدات کے متعلق اس سادہ اور بددیانہ نقطۂ نظر (جو عملی قوموں کا خاصہ ہے) تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ یہیں سے علمِ کلام کی ابتداء ہوتی ہے اور اعتقادی مسائل میں خالص محدثانہ طرز کی مقبولیت میں فرق آنا شروع ہو جاتا ہے۔ (الغزالی، بحث قدیم علم کلام)
ایسے سوالات پیدا ہونے لگے کہ جو چیزیں بلا تشریح و تفسیر تسلیم کر لی جاتی تھیں ان کی تشریح کرنا پڑی۔ اس طرح بہت سی شریحات نفیاً یا اثباتاً عقائد میں داخل ہو گئیں ۔ علوم عقلیہ کی وسعت کے ساتھ ساتھ عقائد کا باب بھی وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ عقائد کی عقلی توجیہوں کی وجہ سے کلامی مباحث میں فلسفیانہ قسم کی الٰہیات شامل ہو گئیں ۔ اسی طرح علمِ کلام ایک تجریدی اسلامی فلسفہ بن گیا۔ اور متعدد مکاتب فکر پیدا ہو گئے۔ جن کے منتسبین نے علم کلام میں بھی خالص مکتبی حیثیت پیدا کر دی لیکن بایں ہمہ ایک جماعت ایسی بھی رہی جو عقائد کے باب میں سلف کی بالکل اسی طرح متبع رہی اور ہر قسم کی موشگافیوں ، فلسفیانہ توجیہوں کو اثباتاً یا نفیاً تسلیم کرنے سے انکار کرتی رہی مگر اس عقلی شور و شغب میں اس جماعت کی حیثیت برابر کم سے کم تر ہوتی چلی گئی۔ بالآخر چوتھی پانچویں صدی میں جب علم کلام بالکل خالص الگ الگ مکتبی حیثیت میں مستحکم ہو گیا اور لوگوں نے کسی نہ کسی مدرسۂ خیال سے وابستگی کو ضروری خیال کر لیا تو سلف کے انداز پر کار بند رہنے والوں کی تعداد بہت معمولی رہ گئی۔