کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 24
موشگافیاں شروع ہو گئیں اور یہ فن بھی اپنی حقیقی حیثیت اور غرض و غایت سے محروم ہو گیا۔ بلاغت محض چند جامد اصولوں کی تلخیص و تشریح اور دو راز کار بحثوں کا نام ہو گیا۔ (مقدمہ ابن خ رحمہ اللہ دون)
علومِ دینیہ۔ تفسیر:
قرآن عربی زبان اور سر زمینِ عرب میں نازل ہوا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے اترا۔ اس لئے وہ قرآنی زبان اور ان واقعات و حوادث سے اچھی طرح واقف تھے جن کے سلسلے میں اس کی آیتیں نازل ہوئی تھیں ، علاوہ ازیں پورا قرآنی ماحول بھی ان کے سامنے تھا۔ ان وجوہ کی بنا پر قرآنِ کریم کے معانی سمجھنے میں انہیں کوئی دقت پیش نہ آتی تھی۔ اس وقت قرآن کی تفسیر عموماً ان واقعات و حوادث کا بیان کر دینا تھا۔ جن سے کسی آیت کو تعلق ہو یا اس ماحول کے مطابق جس کسی لفظ، فقرے، جملے یا عبارت کا مفہوم بتانا یا کسی جزئی مثال کے ذریعے اسے واضح کر دینا یا ناسخ و منسوخ کی تصریح و تشریح کر دینا وغیرہ۔ بعد میں حلقۂ اسلام کی وسعت کے پیشِ نظر تفسیر میں مشکل الفاظ کی لغوی تشریح بھی داخل ہو گئی تھی۔ چنانچہ قرنِ اول و دوم کی تفسیروں کی یہی شان ہے۔ ابتدائی تفاسیر میں انہی مختلف روایتوں کو جمع کر دیا گیا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں ۔ بعض مفسرین نے صحت کا التزام کیا ہے اور بعض نے تمام رطب و یا بس آئندہ کے انتخاب کرنے والوں کے لئے جمع کر دیا ہے۔ قرآن میں بہت سے اسرائیلی واقعات اور تلمیحات ہیں ۔ عرب رفع استعجاب کے تحت ان کے متعلق اور ان کے ما سوا ابتداء خلق وغیرہ کے متعلق ان اہلِ کتاب کی طرف رجوع کرتے تھے جو اسلام قبول کر چکے تھے۔ یہ بزرگ اپنی معلومات کے بقدر جو محدود اور بڑی حد تک عامیانہ اور غیر مستند ہوتی تھیں ان واقعات اور تلمیحوں کو یا دوسرے مستفسرہ واقعات کو بیان کر دیتے تھے۔ اس طرح بہت سی اسرائیلی روایتیں تفاسیرِ قرآن میں آگئیں ۔ اسی طرح مروجہ بائبل کے وہ واقعات جن کی قرآن نے تصدیق نہیں کی تھی، مسلمانوں میں شہرت پا گئے۔
دوسرے دَور کے مصنفین نے اپنی طبعی مذاق کی بنا پر قدیم تفاسیر یا تفسیری روایتوں سے جو بلا پرکھے انتخاب کر لیا تھا، بعد کے مصنفین ان سے اچھی طرح چمٹے رہے۔ عقلی دور شروع ہونے کے بعد مختلف عقلی مفادوں کی حمایت کی بنا پر تفاسیر بھی فلسفیانہ تخیلات کی آماجگاہ بن گئیں ۔ چنانچہ آج کے دَور میں مطالبِ قرآن کو یونانی اوہام سے جدا کرنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔
اسلام میں غیر عربی عناصر کے داخل ہونے کے بعد تفسیریں لسانی نقطۂ نظر سے بھی لکھنا شروع ہو