کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 23
انہی لوگوں نے کی جو فلسفہ یونان سے متاثر تھے جبکہ محدثین اور فقہاء کتاب و سنت کی خدمت میں مصروف رہے لیکن اس دور میں یہ فلسفہ عربی علوم پر چھا گیا۔ اور دوسرے علوم کی طرح نحو میں بھی اس نے اتنا زور پکڑا کہ بالآخر استخراجی قواعد کی محض عقلی بنیادوں پر توجیہ کرنے اور اس میں مہارت کا کام نحو سمجھا جانے لگا۔ ابتداءً تو یہ عقلی توجیہات نکات بعد الوقوع کی حیثیت رکھتی تھیں اور کسی حد تک نحو میں مجتہدانہ بصیرت کا کام بھی دیتی تھیں لیکن بعد میں اصلی فن قرار پا گئیں جبکہ انہیں اصلی فن سے کوئی تعلق تھا نہ اس کی غرض و غایت سے۔ متاخرین خصوصاً اعاجم میں تو نحو میں عقلی موشگافیوں نے اتنا زور پکڑا کہ یہ مضحکہ خیز بن گئیں آٹھویں اور نویں صدی ہجری میں اسی قسم کی نحو کا دور دورہ نظر آتا ہے۔ (ملاحظہ ہو یونانی علوم اور عرب / ص ۱۶۴ تا ۲۶۷/ وغیرہ)
بلاغت:
کلمات کی صوتی خصوصیات، ان کے لغوی معانی اور ان کے استعمال کی نوعیت، مقام کے اعتبار سے ان کی حیثیت کا جاننا، جملوں کے اصناف اور ان کے باہمی ربط، پھر مقام کے اعتبار سے اس ربط کی اہمیت کو پہچاننا، مختلف مواقع کے اعتبار سے اسالیبِ کلام اور طرزِ ادا کی خصوصیت اور ان اثرات کو سمجھنا جن کو وہ پیدا کرتے ہیں ، فنِ بلاغت کا موضوع بحث ہے۔
کلام کو بلیغ بنانے کے لئے سامع اور متکلم کی نفسی کیفیات، ماحول کی خصوصیت، کلمات کلام اور طرزِ ادا کے اثرات کا جاننا اور ان سب کے تحت کلام کو مرتب کرنا امرِ ناگزیر ہے۔ اہل زبان میں کسی کلام کے بلیغ ہونے اور اس حیثیت سے اس کی قدر و قیمت کو سمجھنے کا مادہ عموماً فطری طور پر ودیعت ہوتا ہے۔ بلغاء کے کلام اور ان کے اسالب پر نظر رکھنے سے خود بھی بلیغ کلام پر قدرت حاصل ہو جاتی ہے۔ ابتدائی عہد میں فن بلاغت کی تحصیل کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا گیا، بلیغوں کے کلام اور ان پر ادیبوں کے تنقیدی اور تقریظی اشارات جمع کر دیئے جاتے اور اس سلسلے میں مؤلف کو بھی جو کچھ کہنا ہوتا کہہ دیتا تھا۔ اس کے بعد دوسرا دور آیا جس میں کچھ عام اصول جمع کیے گئے لیکن بلاغت کے سلسلے میں سب سے زیادہ اہمیت خود بلغاء کے کلام کو ہی رہی۔ تقریباً چھٹی ساتویں صدی سے حالت بدلنا شروع ہوئی اور بجائے بلغاء کے کلام کے مستخرجہ اصولوں نے اہمیت حاصل کرنا شروع کر دی۔ بلغاء کے اسالیب اور جملوں نے شواہد و امثلہ کی حیثیت اختیار کر لی اور یہیں سے اس فن میں بھی جمود پیدا ہونا شروع ہو گیا۔ طویل کلام خواہ وہ نظم ہو یا نثر اس کے اسالیب پر توجہ کرنا گویا متروک ہی ہو گیا۔ بالآخر صرف یہ اصول رہ گئے اور ان میں عقلی