کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 22
دینی مدارس کے نصاب اور طرزِ تعلیم پر ایک نظر قسط نمبر: ۲ حافظ عبد الرشید اظہرؔ بعض درسی فنون کی تاریخ کا سرسری جائزہ: ہمارے دینی مدارس کے نصاب پر کسی تبصرہ سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ جن علوم و فنون پر اس کا خاکہ مشتمل ہے ان کی عصری خصوصیات کا ایک مختصر جائزہ پیش کر دیا جائے جس سے ان علوم کی صحیح افادیت اور حقیقی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس بات کا بخوبی اندازہ ہو سکے گا کہ ہماری مروجہ نصابی کتب طلباء کی کیسی ذہنی ربیت کر رہی ہیں اور ایسی کتابیں کس حد تک اپنے فنی مقاصد پورے کر سکتی ہیں ؟ علومِ عربیہ۔ نحو: عربوں کو اپنی زبان پر فطری ملکہ ہونے کی وجہ سے نحوی قواعد کی چنداں ضرورت نہ تھی مگر عجمی اختلاط نے لسانی قواعد کے استخراج اور ان کی تدوین کو ناگزیر بنا دیا۔ چنانچہ عرب میں جن قبائل کی زبان زیادہ معروف اور متداول تھی اور نسبتاً عمومی زبان کی حیثیت رکھتی تھی ان کی بولیوں سے عربی قواعد کا استخراج کیا گیا اور اس سلسلہ میں دو مکاتب وجود میں آئے جو ’’بصری‘‘ اور ’’کوفی‘‘ کے ناموں سے معروف ہیں ۔ نحاۃِ بصرہ قیاس اور مماثلت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اس لئے مختلف فیہ مسائل میں کسی جزوی سماع کو الگ حیثیت دینے کی بجائے کسی مناسبت سے حتی الامکان توجیہ و تاویل کر کے کثیر الوقوع صورت میں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں اسے شاذ قرار دے کر ترک کر دیتے ہیں ۔ اس کے برعکس نحاۃ کوفہ جزوی سماع کو بھی بہت اہمیت دیتے ہیں اور نقل و روایت کا پاس کرتے ہوئے اسے مستقل حیثیت سے دینے سے نہیں جھجکتے۔ جب عربی زبان سے نحوی قواعد کے استنباط و استخراج کے بعد ان کی تدوین ہو چکی تو تہذیب و تنقیح کا دور آیا۔ اگرچہ ابتداء ہی سے بعض مخصوص وجوہات کی بناء پر عربی زبان اور متعلقہ علوم کی طرف زیادہ تر توجہ