کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 20
٭ حضرت عبد اللہ بن جعفر اپنی لونڈیوں سے خوش الحانی کے ساتھ گانے طنبورے کے ساتھ سنا کرتے تھے (اسماع للاستاذ) ٭ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنی لونڈیوں سے ساز کے ساتھ گانے سنا کرتے تھے۔ (ایضاً) ٭ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن جعفر کے ہاں ساز سنا تھا۔ ٭ حضرت حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت نے عزہ سے ساز کے ساتھ ان کے شعر سنے۔ الغرض ابن حزم نے اپنی کتاب ’’سماع‘‘ میں اوفوی نے، قتیبہ نے، ابو طالب مکی نے، ابن طاہر ابن النمون نے بہت سے ایسے واقعات نقل کیے ہیں جن سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ سبھی کچھ جائز ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ روایات مستند نہیں ہیں ۔ اگر بعض روایات تسلیم بھی کر لی جائیں تو ان کی حیثیت نجی ہے اجتماعی نہیں ۔ کیونکہ انہوں نے سماع بھی اپنی لونڈی یا خریدی جانے والی لونڈی سے کیا، چونکہ اپنی لونڈی ہر طرح مباح ہوتی ہے اور اسی کی آواز، اسی کو ہی دلآویز بنانے کا سبب بن سکتی ہے تو انہوں نے سمجھ لیا کہ اب کوئی حرج نہیں ہے۔ تاہم ہمارے نزدیک یہ تاویل اور توجیہ بھی کچھ زیادہ وزنی نہیں ہے کیونکہ صحت صرف کتاب و سنت کی ہے جس کے خلاف کسی کا عمل معتبر نہیں ۔ لا طاعة لمخلوق فی معصعة الخالق (بخاری) نیز صاحب العوارف نے ذکر کیا ہے کہ ان کا سماع اتنا سادہ تھا کہ ہمارے عہد کے اعتبار سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لئے اب شکل ہی بدل گئی ہے اور دورِ حاضر میں موسیقی کی جو تخلیقات سامنے آئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان سے بگڑے تو لاکھوں ہیں لیکن کسی کی بگڑی بن بھی گئی ہو، ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی۔ اگر انجام اور مال سب سے بڑا قاضی ہے تو قاضیٔ شہر کو یہ کہنا پڑے گا کہ اب نظامِ غنا حرام ہے اور لاکھ فتنوں کو جنم دیتا ہے۔ اس نے بہیمی میلانات کو رام نہیں کیا بلکہ ان کو سرکش بنا کر ابن آدم کو جنسی تحریکات اور سفلی جذبات کا صید زبوں بنا کر رکھ دیا۔ اس لئے بہتر ہے کہ مجوزّین اپنے مفروضات اور اغلوطات پر نظر ثانی فرمائیں جو دراصل ان کی استدلالی لفظ پرستی یا واقعہ شماری ہے۔ حقائق کی نقاب کشائی نہیں ہے۔ ہم تو اب چاہتے ہیں کہ آئیے مل کر دلائل کتابی سے ہٹ کر نظام موسیقی کی تخلیقات کی عدالت کی طرف رجوع کریں ۔ ہمارے نزدیک مجوزین کے قاضیٔ شہر سے بھی یہ بڑا قاضی ہے مگر ہمیں یقین ہے کہ لوگ جارح ہیں ۔ یہ راہِ انصاف کی طرف رجوع نہیں کریں گے۔