کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 19
ہیں ورنہ وہ یقیناً تلاوتِ قرآن میں ترقی کرتے۔ صاحبِ عوارف المعارف نے بھی کتاب کے ۲۳ ویں باب میں اس امر کا سخت گلہ کیا ہے کہ اسلاف میں جو سماع کی مثالیں ملتی ہیں ۔ ان سے یہ لوگ اپنے دور کے مسرفانہ سماع کے لئے استدلال کرتے ہیں ۔ پھر وہ لکھتے ہیں کہ:۔ ’’اگر ایک صاحبِ انصاف، انصاف کی بات کرے اور اپنے دور کے اہلِ سماع کے اجتماعات کا بغور جائزہ لے اور موسیقار کی خصوصی (فنی قسم کی) نشست اور بانسری بجانے والے کا انداز دیکھے اور پھر وہ سوچے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں کبھی یہ رنگ ڈھنگ دیکھنے میں آئے؟ کیا آپ کے دور میں قوالوں کو جمع کر کے سماع کے لئے ان کے گردیوں مجتمع ہو کر لوگ بیٹھے؟ تو یقیناً وہ بول اُٹھے گا کہ ہرگز نہیں ۔‘‘ ان کے الفاظ یہ ہیں : وان انصف المنصف وتفکر فی اجتماع اھل الزمان وقعود المغنی بدفه والمشبب بشبابته وتصور في نفسه ھل وقع مثل ھذا الجلوس والھيئة بحضرة الرسول صلی اللہ علیہ وسلم وھل استحضروا قوالا وقعدوا مجتمعين لاستماعه لاشك ينكر ذلك من رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم واصحابه (العوارف باب ۲۳) پھر فرماتے ہیں کہ ’’اگر اس میں کچھ منقبت ہوتی تو وہ کبھی اس کو نہ جانے دیتے۔ اگر کوئی ایسا سمجھتا ہے تو پھر یہی کہنا پڑے گا کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، صحابہ کرام اور تابعین کے حالات سے ناواقف ہے۔ ولو كان في ذلك فضيلة ........ ما اھملو لھا فمن يشير بانه فضيلة تطلب ويجتمع لھا لم يحظ يذوق معرفة احوال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم واصحابه والتابعين (ايضاً) وجہِ مغالطہ: کچھ روایات میں مختلف محل و موقعہ پر ’’غنا‘‘ گانے کا ذِکر آیا ہے۔ اس کی توجیہ اس قسط کے شروع میں بیان کر دی گئی ہے۔ ہاں بعض صحابہ اور تابعین کے بارے میں کچھ واقعات ایسے بیان کئے جاتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ سماع کیا کرتے تھے مثلاً: