کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 18
ہے کہ وہ ابتلاء سے بچ نہیں سکے گا۔ اس شیطانی سلسلہ نے کتنی جانیں ضائع کر دیں اور کتنوں کو عشق کی زنجیروں میں نکڑ ڈالا۔‘‘ (مختصراً۔ نیل الاوطار) ان کے اصل الفاظ یہ ہیں : فلا یخفی علی الناظر ان محل النزاع اذا خرج عن دائرۃ الحرام لم یخرج عن دائرۃ الاشتباہ والمومنون وقانون عند الشبھات۔۔۔۔۔ ولا سیما اذا کان مشتملا علی ذکر القدور الخدود والجمال والدلال والھجر والوصال معاترۃ العقار وخلع العذار والوقار بان سامع ما کان کذلک لا یخلو عن بلية ۔۔۔۔۔۔۔ علم لھذہ الوسیلة الشیطانية من قتیل دمه مطلول واسیر بہموم عزامه وھایمه لکبول نسأل اللہ السداد والثبات‘‘ (نیل الاوطار ص ۸۷، ۸ باب ما جاء فی اٰلة اللھو) قارئین کرام! یہ ساری رام کہانی اس غنا اور سماع کی ہے جو پاک لوگوں کے ہاں مروج تھا نہ کہ اس دور کی جواب موسیقی کے نام پر مچل رہا ہے۔ پاک دَور میں اس کی شکل ’’شعر گوئی‘‘ کے قریب تھی اور اگر دف یا کوئی ساز بھی ساتھ تھا تو وہ بھی درجہ سادہ ہوتا تھا۔ یقین کیجئے! اسلاف کے ہاں جو سماع متنازع فیہ رہا ہے۔ ہمارے عہد کے فتنہ بردوش نظامِ غنا، سماع، دستور رقص و سرود سے اس کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ۔ اسلاف کے ہاں جو رنگ تھا وہ منقبض طبیعت کے لئے انشراح کی ایک کوشش تھی تاکہ بریک کھل جائے اور قافلۂ حیات فرصت میں بھانپ گئے اور وہ یہ کہ انقباض کی گرہ کشائی ایک خاص دلچسپی اور مبلغ علم کی نشاندہی کرتی ہے۔ گویا کہ ان کے جذبات میں سفلیات کا ابھی دخل تھا۔ اس لئے انہی سے اپنے اخلاق کی دوا بھی کرتے تھے۔ لیکن جو لوگ مائل بہ پرواز تھے وہ اپنے طبعی انقباض کی دوا آسمانی نسخۂ شفا سے کرتے تھے۔ یعنی نغمہ و سرود کے بجائے تلاوتِ قرآن، نماز اور ذکر و ثناء سے کیا کرتے تھے، کیونکہ جس ذات پاک کے قرب و وصال کی تڑپ ان کو بے چین رکھتی تھی۔ اسی پاک ذات کے کلام، عبادت اور اس کی حمد و ثنا میں وہ چین پاتے تھے۔ چنانچہ حضرت شیخ جیلانی رحمہ اللہ نے ان اہل سماع پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ یہ ذوقِ جام کے مریض