کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 17
حصولِ مقصد کے لئے ذریعہ اور وسیلہ کا کام دیتے ہیں ، یعنی اگر شارع کسی کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے تو اس کے حصول کا زریعہ بھی مقصود و مطلوب کی طرح مشروع سمجھا جائے گا اور جس کام سے منع کرتا ہے تو اس ممنوع تک پہنچنے کا جو سبب اور وسیلہ ہوتا ہے وہ بھی اسی طرح ممنوع تصور کیا جائے گا۔ حضرت امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (متوفی ۲۰/ ذوالقعدہ ۷۲۸ھ، ۱۳۳۷ء نے اقامۃ الدلیل علی ابطال التحلیل میں ، حضرت امام ابن القیم (ف ۷۵۱ھ) نے اعلام الموقعین میں اور حضرت امام ابو اسحٰق ابراہیم بن موسیٰ الغرناطی المالکی (ف ۷۹۰ھ) نے الموافقات میں بڑی نفیس بحث کی ہے۔ ان مباحث کا اصل اور قانونی ماخذ دراصل قرآن و حدیث ہے۔ مثلاً فرمایا ’’لا تقربوا الزنا‘‘ یا لا تقربا ھذہ الشجرۃ وغیرہما سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے نزدیک نہ جانے کا یہی مطلب ہے کہ اس راہ پر قدم بھی نہ رکھو جو ممنوعات کی طرف جاتی ہے گویا کہ وسیلہ اور ذریعہ بھی ممنوع ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مثال یوں بیان فرمائی: کالراعی یرعی حول الحمٰی یوشک ان یرتع فیه (بخاری) جیسا کہ چرواہا جو رکھ کے اردگرد چراتا ہے ہو سکتا ہے کہ (اس کے چرنے والے جانور) رکھ میں بھی جا چریں ۔ گویا ممنوعہ علاقہ سے کما حقہ بچنے کے لئے ضرور ہے کہ وہ اس کی باڑ سے بھی پرے رہے ورنہ اس میں جا پڑنا عین ممکن ہوتا ہے۔ الغرض ’’سدِّ باب‘‘ کے طور پر ضروری ہے کہ جن محارم تک پہنچنے کے لئے غنا اور سماع کی مہمیز وسیلہ اور سبب بن سکتی ہے وہ بھی شرعاً اسی طرح حرام و ممنوع سمجھی جائیں جیسے وہ امورِ ممنوعہ۔ باقی رہا یہ سوال کہ موسیقی کی فتنہ سامانیاں کیا واقعی اتنی ہی سنگین ہیں جن کا احساس کیا جا رہا ہے تو ہم پوری شرحِ صدر کے ساتھ یہ عرض کریں گے کہ وہ بالکل بجا اور صحیح ہیں اور جن کو اس میں شک ہے وہ شاید فرش پر نہیں عرش پر رہتے ہیں ۔ حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ (ف ۱۲۵۵ھ) نے کیا خوب لکھا ہے کہ: ’’مانا کہ وہ حرام نہ ہو لیکن اشتباہ کے دائرہ سے خارج نہیں ہے اور مومن کا خاصہ ہے کہ مقام اشتباہ آجائے تو ٹھٹھک کر رہ جاتے ہیں ۔ خاص کر جب کسی حور وش کے قدوقامت، خدوخال، حسن و جمال، نازواوا، ہجر و وصال کا تذکرہ بھی ہو تو ظاہر