کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 16
کے بدلے ادنیٰ چیز لائے یعنی قرآن کے بدلے اشعار۔ جیسی حالت آج کل ہے۔ حضرت جیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن کے سلسلہ میں یہ لوگ سنجیدہ ہوتے تو وہ سماع قرآن کے بغیر کسی او طرف متوجہ ہی نہ ہوتے۔ فلو صدقوا فی قصدھم وجردھم و تصرفھم ما انزعجوا فی قلوبھم وجوارحھم بغیر سماع کلام اللہ عزوجل اذھو کلام محبوبھم ومفتر‘‘ (غنیہ) ایک اور بزرگ کا ارشاد ہے: وادمانه یثقل القراٰن علی القلب کہ سماع پر مداومت، قرآن کو دل پر بوجھ بنا دیتی ہے۔ حضرت شبلی کا تبصرہ اور بھی جاندار ہے۔ ان سے کسی نے سماع کے بارے میں پوچھا: أحق ھو؟ قال لا، فقیل ما ذا؟ قال فما ذا بعد الحق الالضلال‘‘ (غنیہ) کہ کیا وہ برحق ہے؟ فرمایا نہیں ۔ تو پھر وہ کیا ہے؟ فرمایا حق کے بعد تو ضلالت ہی رہ جاتی ہے۔ زہر آمیختہ شہد: حضرت مجددّ الف ثانی رحمہ اللہ نے سماع کو ذہر آمیختہ شہد سے تعبیر فرمایا ہے۔ مکتوبات، مکتوب نمبر ۳۴، ص ۶۴، ۳ میں لکھتے ہیں : ’’و بر سرود و نغمہ رغبت نہ کنند و بالتذاذ آں فریضۃ نہ گردند کہ آں سمجھے است عسل آلودہ زہریست شکر اندودہ۔‘‘ یعنی سرود و نغمہ سے دل چسپی نہ رکھیں اور نہ ہی ان سے لطف اندوزی پر فریفتہ ہوں ۔ کیونکہ یہ شہد آلود اور شکر آمیختہ زہر ہے۔ اس زہرِ شیریں نے جو تباہی مچائی، نوخیز نسل کے مستقبل کو جس طرح غارت کیا، قلب و نگاہ کی کائنات کو جس قدر اس نے ویران کیا۔ شیطانی اثر و نفوذ کے امکانات اس کے زیر سایہ کس طرح اور کس قدر بڑھے، رحمانی اثرات اور ربانی ملکات جس طرح مسخ ہوئے وہ محتاجِ بیان نہیں ہے۔ الغرض یہ داستاں جس قدر درد ناک اور شرمناک ہے اتنی ہی واضح اور عیاں بھی ہے۔ سدِّ باب کا تقاضا: امام ابن القیم اور حضرت امام شاطبی رحمہم اللہ نے ان ذرائع اور وسائل سے خاصی بحث کی ہے جو