کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 15
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو جہل کی لڑکی سے (جو مسلمان ہو چکی تھی) نکاح کرنا چاہا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: لا تجتمع بنت رسول الله وبنت عدو الله عند رجل واحد (ترجیح) ’’کہ ایک ہی شخص کے عقد میں رسول اللہ کی بیٹی اور عدو اللہ کی بیٹی جمع نہیں ہو سکتیں ۔‘‘ یہاں پر امام ابن القیم نے اسی تلمیح کو استعمال کیا ہے کہ ذوقِ قرأتِ قرآن اور ذوقِ غنا بھی کسی ایک فرد میں جمع نہیں ہو سکتے۔ جس کو قرآن کی تلاوت کی حلاوت حاصل ہے وہاں نغمہ و غنا کی بات نہیں رہے گی اور جہاں نے نوازی اور سماع کی بادشاہی ہو گی وہاں قرآن کا گزر نہیں ہو ا۔ فما اجتمع واللہ الامر ان فی قلب الا وطر واحدھما الاخر ولا تجتمع بنت رسول اللہ وبنت عدو اللہ عند رجل واحد ابدا (ترجیح، ذوق القراءۃ) (کہ) بخدا! ایک دل میں یہ دونوں (تلاوت قرآن اور غنا) جمع نہیں ہو سکتے مگر ایک دوسرے کو بھگا دیتا ہے (جیسا کہ) رسول اللہ کی بیٹی اور عدو اللہ کی بیٹی ایک شخص کے عقد میں کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتیں ۔ امام ابن القیم بات کیا کہہ گئے ہیں ؟ اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جو باذوق بھی ہیں اور اہلِ دل بھی۔ بخدا! ہم نے تو جب سے ان سطور کا مطالعہ کیا ہے دل ہار بیٹھے ہیں اور اس کے بعد واقعۃً کسی اور دلیل و برہان کی ضرورت ہم محسوس نہیں کرتے۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو اولیاء اللہ میں اپنا ایک نمایاں اور منفرد مقام رکھتے ہیں ۔ سماع کے روّ میں ایک نئی راہ پیدا کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ سماع پر لٹو ہو رہے ہیں ان کی مثال ان اسرائیلیوں کی سی ہے جنہوں نے من و سلوٰی کے مقابلہ میں پیاز اور مسور کی دال مانگی تھی۔ یعنی قرآن کے ہوتے ہوئے سماع اور غنا کا شوق رہنا یوں ہے جیسے حلوا اور پلاؤ کے بدلے دال مانگنا۔ ولا ینبغی للفقیر ان یتقاضی القاري ولا القوال۔ ان استبدل القول الذي ھو ادني بالذي ھو خير يعني الابيات بالقراٰن علي ما ھو عادة اھل الزمان اليوم (غنية الطالبين) یعنی سالک کے لئے مناسب نہیں کہ وہ قاریٔ قرآن یا قول سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اعلیٰ