کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 14
کہ بخدا بہت سی شریف خواتین گانے سنتے سنتے فاحشہ ہو گئیں اور بہت سے شریف مرد گانے سنتے سنتے لڑکوں اور لڑکیوں کے غلام بے دام بن گئے اور بہت سے غیور لوگوں نے اس کی وجہ سے دنیا میں بڑی شہرت حاصل کی۔ ایک دلچسپ کہانی: اس سلسلہ میں بعض کتابوں میں ایک عجیب قصہ درج کیا گیا ہے، گو اس کی روایتی حیثیت کچھ ایسی نہیں ہے تاہم قرائن بتاتے ہیں کہ جس بات کی نشاندہی کی گئی ہے، بالکل صحیح اور بجا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب خدا نے ابلیس کو دھتکار دیا تو ابلیس نے کہا، الٰہی!تو نے مجھے دھتکار تو دیا ہے۔ اب میرے کام کیا ہوں گے؟ فرمایا، شعبدہ بازی اور جادوگری، پھر ابلیس نے پوچھا اور میرا قرآن؟ فرمایا اشعار۔ پھر اس نے پوچھا، میری کتاب؟ فرمایا، گودنا! پھر پوچھا اور میرا کھانا؟ جواب ملا، ایسا مردار جس پر خدا کا نام نہ پڑھا گیا ہو۔ پھر ابلیس نے پوچھا اور میرا پینا؟ فرمایا ہر نشہ آور شے! پھر پوچھا اور میرا ٹھکانا؟ فرمایا، بازار۔ فما صوتی قال المزامیر قال فما مصائدی قال النساء یعنی پوچھا کہ میری (خصوصی) آواز؟ فرمایا، مزامیر۔ کہا، میرا شکار؟ فرمایا عورتیں ۔ حرمتِ مزامیر اور غنا کے سلسلہ میں کچھ صحیح روایات موجود ہیں جو کمزور روایات کی تقویت کا باعث ہیں ۔ اس لئے کمزور روایات کو اس مضمون کی مجموعی حیثیت سے الگ نہیں رکھنا چاہئے بلکہ دونوں کو ملا کر مطالعہ کرنا چاہئے۔ اس کے بعد اسلامی تعلیم و تربیت کے مقاصد اور ملتِ اسلامیہ کے مزاج اور فرائض کے آئینہ میں رکھ کر ان کا جائزہ لینے کی کوشش فرمائیں ۔ ان شاء اللہ جو بات ہم کہنا چاہتے ہیں ۔ آپ کی سمجھ میں ضرور آجائے گی۔ غنا،قرآن کی راہ مارتا ہے: حضرت امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر ایک مضمون تحریر فرمایا ہے جس کا نام ’’ترجیح ذوق القراءۃ والصلوٰۃ علی ذوق السماع واصوات القینات‘‘ ہے۔ اس مضمون پر اتنی جامعیت، جاذبیت اور واقفیت شاید ہی کہیں اور ملے۔ اسے پڑھنے کے بعد ایک دفعہ ضمیر اور روحانیت ضرور بیدار ہو جاتی ہے۔ ہم یہاں اس کی تلخیص پیش کرنے سے قاصر ہیں ۔ تاہم ایک بات پیش کرتے ہیں کہ ضروری اور مناسب حال ہے: