کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 13
’’گانا، زنا کا داعی ہے۔‘‘ محمد بن ازدی حطیۂ شاعر کا واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک عرب کے ہاں اپنی بیٹی کے ساتھ مہمان ہوا۔ جب رات ہوئی تو گانے کی آواز سنی تو ہا ’’چپ رہیے‘‘ پوچھا، اس میں کیا ناپسندیدہ بات ہے؟ کہا: ان الغنا رائد من رادۃ الفجور (کتاب ذم الملاہی ابن ابی الدنیا) 5. حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ : آپ غنیۃ الطالبین میں لکھتے ہیں : ثم یکفی فی کراھة ما في ذلك من ثوران الطبع وھيجان الشھوة ’’یعنی (اس کی حرمت و کراہت کے لئے) یہ کافی ہے کہ حیوانی مزاج کو گرماتا ہے اور جنسی تحریک پیدا کرتا ہے۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ واسلام نے رنجشہ غلام سے جو صحابی بھی تھے، جب گانے لگے تو کہا: یا رنجشة رویدا بالقواریر (مشکوٰۃ) ’’اے رنجشہ! ان آبگینوں کو جانے دیجئے!‘‘ مقصد یہ ہے کہ گانا بجانا بہیمی میلانات میں شدید تحریک اور ہیجان پیدا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے انسان عموماً جنسی خواہش کی بھینٹ چڑھ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ ؎ عشق نے غالب نکما کر دیا ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے ایک امام لکھتے ہیں کہ یہ مفاسد تو تنہا غنا (گانے) کے ہیں اور جب اس کے ساتھ دوسرے آلات موسیقی بھی مل جائیں جیسے دف، بانسری وار پھر اس میں رقص اور جھومنا لہکنا بھی شامل ہو جائے تو اگر کوئی عورت کسی گانے سے حاملہ ہو سکتی تو اس سے ضرور ہو جاتی: فاما اذا اجتمع الي ھذه الرقية الدف واشبابة والرقص بالتخنت والتكسر فلو حبلت المرءة من غنا لجعلت من ھذه الغناء اس کے آخر میں موصوف لکھتے ہیں : فبعمر اللہ کم من حرة صارت بالغنا من البغايا وكم من حر اصبح به عبدا للصبيان او الصبايا وكم من غيور تبدل به اسما قبيحا بين البرايا