کتاب: محدث شمارہ 18 - صفحہ 10
وحسنت زینتھا اعجبھا الخروج (ابن ابی شیبہ۔ عن عمر) ’’یعنی عورتوں کو بکثرت لباس فاخرہ نہ دیا کرو اس سے ان کو باہر نکلنے کا شوق چراتا ہے۔‘‘ حدیث میں لفظ ’’یستحلون‘‘ آیا ہے جس کے معنی عموماً ’’حلال‘‘ کیے جاتے ہیں جو محل نظر ہیں ۔ کیونکہ ان کو حلال بہ ایں معنی کوئی نہیں تصور کرتا کہ وہ شرعاً اخلاقاً جائز بھی ہیں بلکہ اس کے صحیح معنے ’’کوئی حرج نہ محسوس کرنا‘‘ ہیں یعنی لوگ ان کا ارتکاب کریں گے مگر ان کی سنگینی کا احساس نہیں کریں گے۔ مثلاً یوں کہیں گے چلو! دیکھا جائے گا۔ اب یہ آپ کی دیانت اور تجربہ پر منحصر ہے کہ حدیث میں جن امور کی نشاندہی کی گئی ہے ان کے متعلق فیصلہ کریں کہ وہ کہاں تک صحیح ہیں ؟ ہم کہیں گے تو آپ کو اس میں ایک گونہ تکلف محسوس ہو گا۔ دو بد نہاد آوازیں : عن جابر عنه صلی اللہ علیہ وسلم قال ولکنی نھیت عن صوتین احمقین فاجرین، صوت عند نغمة ولھو ومزامیر شیطان الحدیث ’’مجھے دو احمقانہ اور بد نہاد آوازوں سے منع کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک آواز گانے، شغلِ بے قابو اور شیطانی مزامیر کی آواز ہے۔‘‘ (ترمذی۔ حدیث حسن) (امام ترمذی فرماتے ہیں یہ حدیث ’’حسن‘‘ ہے یعنی قابلِ حجّت اور مستند ہے) احمق اس لئے فرمایا کہ گویوں کے راگ و رنگ کا جو مسرفانہ تکلف ہوتا ہے کوئی سنجیدہ رنگ نہیں ہوتا۔ فاجرین و بد نہاد اس لئے کہا کہ اس سے قلب و نگاہ میلے ہو جاتے ہیں ۔ چنگ و رباب کو مٹانا بعثت کے فرائض میں سے ہے: عن ابی امامة عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان اللہ بعثنی رحمة وھدي للعالمين وامرني ان امحق المزامير والكبارات يعني البرانط والمعازف (رواه احمد وفيه علي بن يزيد وھو ضعيف) ’’مجھے میرے اللہ نے ساری دنیا کے لئے رحمت اور ہدایت بنا کر مبعوث فرمایا اور یہ حکم دیا کہ سرود و چنگ و رباب کو مٹاؤں ۔‘‘ ابن غیلان نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہ نقل فرمایا ہے: