کتاب: محدث شمارہ 17 - صفحہ 9
روشن دور کی تاریکیاں مادی سائنس اور فلسفے کے شاخسانے جناب ریاض الحسن نوری (ایم۔ اے) ان کالموں میں یہ مضمون درس قرآن، جس کی ابتدا ہم نے اپریل ۷۲ء سے کی تھی، کی قسط نمبر ۲ کی جگہ شائع کیا جا رہا ہے کیونکہ اسے ہم ان شاء اللہ ’’اسلامی معیشت نمبر‘‘ میں مسئلہ معیشت کی شرعی حیثیت سے ایک مستقل مضمون کی شکل میں ہدیۂ قارئین کریں گے۔نیز خاص نمبر تک ہم نے درسِ قرآن کو ملتوی کر دیا ہے کیونکہ اس وقت کئی دیگر مضامین کی فوری اشاعت (جس کا ہم اعلان کر چکے تھے) بھی ہمارے پیش نظر ہے۔ ہم نے خاص نمبر کے بعد درسِ قرآن اور درس حدیث دونوں کی مستقل اشاعت کا فیصلہ کیا ہے۔ (وھو الموفق) کسی گھڑی یا دیواری گھنٹے کے اندر خواہ کتنے ہی خوبصورت پرزے ہوں ، کیسی ہی قیمتی دھاتیں استعمال کی گئی ہوں ۔ دانش و حکمت کا ان کی ترتیب میں کتنا ہی دخل ہو اور کیسے ہی بڑے سائنس دان اور ماہرینِ ریاضیات اور انجینئر اس کی تشکیل میں حصہ دار ہوں ، مشینری کی ساری قدر و قیمت کا عین اس کے اس ڈائل سے ہوتا ہے جس پر سوئیوں کی نپی تلی حرکت بہ طور نتیجہ وقت دکھاتی ہے۔ ڈائل پر اگر وقت کا حساب غلط آرہا ہے، سوئیاں تیز چل رہی ہیں، سست چل رہی ہیں یا کوئی ایک ڈھیلی ہو کر رہ گئی ہے۔ اور اگر یہ بے قاعدگی مستقل ہو، روز بروز بڑھتی جائے اور ماہر ترین مرمت کار بھی اسے صحت و اعتدال پر نہ لا سکیں تو پھر ڈائل کے پیچھے چاہے سونے چاندی کے پرزے ہوں اور پچاسوں ہیرے کی کنیاں (Jewels) لگی ہوں ، گھڑی یا گھنٹے کی وقعت ختم ہو جائے گی۔ بعینہٖ یہی حالت کسی نظام زندگی یا تہذیب کی ہوتی ہے، وہ بے شمار علمی کارناموں ، فلسفیانہ افکار، سائنسی سرگرمیوں ، قانونی نظام، معاشی رابطوں ، سیاسی ادارت اور کئی دوسری چیزوں سے ترکیب